ذَٰلِكَ جَزَاؤُهُم بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا وَقَالُوا أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا
یہ ان کا بدلہ ہے کیونکہ انہوں نے ہماری آیات کا انکار کیا اور کہا کہ: ’’جب ہم، ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا ازسرنو پیدا [١١٦] کرکے اٹھائے جائیں گے؟‘‘
انسان کی عادت ہے کہ کوئی بات خواہ وہ کتنی ہی محیرالعقول (یعنی عقل سے ماورا) ہو جب عادت بن جائے تو اس پر غور کرنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔ مثلا سب سے زیادہ محیرالعقول (عقل سے ماورا) اس کا اپنا جسم ہے۔ جو ہماوقت ایک آٹو میٹک مشین کی طرح کام کر رہا ہے، جب سے وہ پیدا ہوا اس وقت سے اس کا دل حرکت کر رہا ہے اور مرے دم تک حرکت کرتا رہے گا اس میں ایک لمحہ کا بھی وقفہ نہیں ہوتا اور جب وقفہ پڑے گا تو موت واقع ہو جائے گی۔ اسی طرح اس کے پھیپھڑے، معدہ، جگر، گردے سب اپنا اپنا کام اس طرح کر رہے ہیں کہ اسے کسی بات کی خبر نہیں ہوتی کہ اس کے اندر کیا کچھ ہو رہا ہے۔ وہ غذا کھاتا ہے تو اس کے اندر نصب شدہ مشین خودبخود اسے خون میں تبدیل کر دیتی ہے اور جو فضلہ بچتا ہے تو طبیعت خود اسے مجبور کر دیتی ہے کہ رفع حاجت کرے۔ اور یہی خون اس کی زندگی کا سہارا ہے پھر اسی غذا کے ملغوبہ سے مادہ کے اندر دودھ بھی بنتا ہے۔ پھر انسان کی تربیت اس کے دیکھنے کا نظام، اس کے سننے کا نظام، اس کی نیند کا نظام بھی ایک حیرت انگیز نشانی ہے۔ نیند میں انسان کے بدن کے گھسے ہوئے ذرات کی جگہ نئے ذرات پیدا ہونے کا نظام بھی رب کی ایک نشانی ہے اللہ تعالیٰ کے ایسے ہی محیرالعقول (عقل سے ماورا) کارنامے ہیں، لیکن انسان نے کبھی ان میں غور کرنا گوارا نہیں کیا، اور دوسری طرف اگر اسے کوئی محیرالعقول بات بتائی جائے کہ وہ مستقبل میں واقع ہوگی تو فوراً اس کا انکار کر دیتا ہے اور کہنے والے کو دیوانہ کہنا شروع کر دیتا ہے۔ مثلاً دورنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اگر کوئی شخص یہ کہہ دیتا ہے کہ ایک وقت آنے والا ہے جب ایک انسان دنیا کے ایک کنارے پر اور دوسرا دوسرے کنارے پر ہوگا اور وہ آپس میں بات چیت کریں گے، اسی طرح اگر کوئی یہ کہتا کہ ایک سواری پیدا ہوگی جو ہزاروں من بوجھ اُٹھائے ہوا میں بڑی تیزی سے اُڑا کرے گی۔ تو ایسی باتوں کا سب لوگ انکار کر دیتے مگر آج ٹیلی فون اور ہوائی جہاز پیدا ہو گئے اور انسان کی عادت میں شامل ہو گئے ہیں تو اب ان کو تسلیم کرنے لگا ہے۔ بالکل ایسی ہی بات دوبارہ پیدا ہونے کی ہے۔ اگر وہ اپنے جسم کی اندرونی ساخت پر ہی غور کر لیتا تو اسے معلوم ہو سکتا تھا کہ جو خالق ایسی محیر العقول مشینری بنانے پر قادر ہے وہ مرے ہوئے انسان کے ذرات کو بھی اکٹھا کر سکتا ہے اور اس میں روح پھونک کر اسے دوبارہ اٹھا کر کھڑا بھی کر سکتا ہے۔