وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ ۚ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ۚ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا كَبِيرًا
اور جب ہم نے آپ سے کہا تھا کہ آپ کا پروردگار لوگوں کو گھیرے [٧٥] ہوئے ہے۔ اور جو نمائش [٧٦] (واقعہ معراج) ہم نے آپ کو دکھائی اور وہ درخت جس پر قرآن [٧٧] میں لعنت کی گئی ہے انھیں ان لوگوں کے لئے بس ایک آزمائش بنا رکھا ہے۔ ہم انھیں ڈراتے رہتے ہیں مگر تنبیہ ان کی سرکشی میں اضافہ ہی کرتی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے خوف ہو کر دین کی تبلیغ کیجیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچاؤ کے ذمہ دار ہم ہیں وہ آپ کو کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے۔ ہم ان سے آپ کی حفاظت فرمائیں گے۔ وہ سب لوگ اللہ کے غلبہ اور تصرف میں ہیں اللہ جو چاہے گا وہی ہوگا نہ کہ وہ ہو گا جو چاہیں گے۔ مقصدِ معراج: صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ نے واقعۂ معراج کی تفسیر عینی رؤیت سے کی ہے اور مراد اس سے معراج کا واقعہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو آنکھوں سے دکھایا۔ جو بہت سے کمزور ایمان والوں کے لیے فتنے کا باعث بن گیا اور وہ مرتد ہو گئے کہ آگ میں بھلا زقوم (تھوہر) کا درخت کیسے اُگ سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَذٰلِكَ خَيْرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّوْمِ۔ اِنَّا جَعَلْنٰهَا فِتْنَةً لِّلظّٰلِمِيْنَ۔ اِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِيْ اَصْلِ الْجَحِيْمِ۔ طَلْعُهَا كَاَنَّهٗ رُءُوْسُ الشَّيٰطِيْنِ۔ فَاِنَّهُمْ لَاٰكِلُوْنَ مِنْهَا فَمَالِـُٔوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَ﴾ (الصافات: ۶۲۔ ۶۶) ’’کیا یہ مہمانی اچھی ہے یا سینڈھ (زقوم) کا درخت؟ جسے ہم نے ظالموں کے لیے سخت آزمایش بنا رکھا ہے۔ بے شک وہ درخت جہنم کی جڑ میں سے نکلتا ہے۔ جس کے خوشے شیطانوں کے سروں جیسے ہوتے ہیں۔ جہنمی اسی درخت میں سے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے۔‘‘ یہ بھی دراصل اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا انکار ہے کہ اس کی باتوں کو اپنی عقل کے پیمانے سے ناپنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ کا قول ہے۔ شب معراج اور شجرۃ الزقوم پر مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ دکھانا آنکھ کا دکھانا ہے۔ مشاہدہ جو شب معراج میں دکھایا گیا۔ (ابن کثیر)