سورة الإسراء - آیت 25

رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ ۚ إِن تَكُونُوا صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جو کچھ تمہارے دل [٢٨] میں ہے اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ اگر تم صالح بن کر رہو تو وہ ایسے رجوع کرنے والوں کو معاف کردینے والا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

گناہ اور استغفار: اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو نیک نیتی سے اپنے والدین کی خدمت یا ان سے بہتر سلوک کرتے ہیں اللہ انھیں بھی خوب جانتا ہے۔ اور جو لوگ محض لوگوں کی باتوں سے بچنے کی خاطر والدین کی خدمت کرتے ہیں انھیں بھی خوب جانتا ہے۔ اللہ کی بخشش اور رحمت تو ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ کے فرمانبردار بن کر والدین کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں۔ جن سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے جسے وہ اپنے نزدیک کوئی گناہ نہیں سمجھتے چونکہ ان کی نیت بخیر ہوتی ہے۔ اس لیے اللہ ان پر رحمت کرتا ہے۔ تفسیر طبری میں ہے (۱) جو ماں باپ کا فرمانبردار نمازی ہو اس کی خطائیں اللہ کے ہاں معاف ہیں (۲) کہتے ہیں اوابین وہ لوگ ہیں جو مغرب و عشاء کے درمیان نوافل پڑھیں۔ بعض کہتے ہیں جو ضحی کی نماز ادا کرتے رہیں جو ہر گناہ کے بعد توبہ کر لیا کریں، جو جلدی سے بھلائی کی طرف لوٹ آیا کریں۔ (۳) تنہائی میں اپنے گناہوں کو یاد کر کے خلوص دل سے استغفار کر لیا کریں (۴)عبید کہتے ہیں کہ جو برابر ہرمجلس سے اُٹھتے ہوئے یہ دُعا پڑھ لیا کریں ( اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِی مَا اَصَبْتُ فِی مَجْلِسِیْ ھٰذٰا) ابن جریر فرماتے ہیں اولیٰ قول یہ ہے کہ جو گناہ سے توبہ کر لیا کریں، معصیت سے اطاعت کی طرف آجایا کریں اللہ کی ناپسندیدگی کے کاموں کو ترک کرکے اس کی رضا مندی اور پسندیدگی کے کام کرنے لگیں یہی قول ٹھیک ہے۔ (تفسیر طبری) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ اِلَیْنَا اَیَابَہُمْ﴾ (الغاشیۃ: ۲۵) ’’ان کا لوٹنا ہماری ہی طرف ہے۔‘‘ ایک صحیح حدیث میں ہے حضور علیہ السلام جب سفر سے لوٹتے تو فرماتے۔ آئِبُوْنَ، تَائِبُوْنَ، عَابِدُوْنَ، لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ لوٹنے والے، توبہ کرنے والے، عبادتیں کرنے والے، اپنے رب کی ہی تعریفیں کرنے والے ہیں۔‘‘ (بخاری: ۴۱۱۶)