وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ
اللہ تعالیٰ ایک بستی کی مثال بیان کرتا ہے۔ جو امن و چین سے رہتی تھی اور ہر طرف سے اس کا رزق اسے بفراغت پہنچ رہا تھا۔ پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان کے کرتوتوں کا مزا یہ چکھایا کہ ان پر بھوک [١١٦] اور خوف (کا عذاب) مسلط کردیا
اکثر مفسرین نے اس قریہ (بستی) سے مراد مکہ لیا ہے۔ یعنی اس میں مکہ اور اہل مکہ کا حال بیان کیا گیا ہے۔ اور یہ اس وقت ہوا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک اللہ کی پرستش کی دعوت دی اور شرکیہ افعال ترک کرنے کے لیے کہا تو وہ بگڑ گئے اور پیغمبراسلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو دکھ دینا شروع کر دیے اور ان کے جانی دشمن بن گئے، تب اللہ تعالیٰ نے ان سے اپنی نعمتیں چھین لیں اور ان پر قحط کا عذاب مسلط کر دیا اور یہ قحط سات سال تک ان پر مسلط رہا اور ان کا یہ حال ہو گیا کہ مردہ جانوروں کے چمڑے اور ہڈیاں تک کھانے پر مجبور ہو گئے اور جسمانی کمزوری اور بھوک کی شدت کا یہ حال تھا کہ اگر آسمان کی طرف نگاہ اُٹھاتے تو انھیں دھواں ہی دھواں نظر آیا، بھوک کی وجہ سے کچھ لوگ تو مرگئے اور جو باقی تھے انھیں بھی ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ اگر کچھ عرصہ یہی حالت رہی تو ان کا زندہ رہنا بھی مشکل نظر آتا ہے۔ گویا یہ عذاب صرف بھوک کا نہ تھا۔ بلکہ بھوک کی وجہ سے مرجانے کا خوف بھی اس پر مسلط رہتا تھا۔