مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
جس شخص نے ایمان لانے کے بعد اللہ سے کفر کیا، اِلا یہ کہ وہ مجبور کردیا جائے اور اس کا دل [١١١] ایمان پر مطمئن ہو (تو یہ معاف ہے) مگر جس نے برضا و رغبت کفر قبول کیا [١١٢] تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لئے بہت بڑا عذاب ہے
ایمان کے بعد کفر پسند لوگ: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ ایمان کے بعد کفر کریں دیکھ کر اندھے ہو جائیں۔ پھر کفر پر ان کا سینہ کھل جائے، یہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہوتے ہیں کہ ایمان کا علم حاصل کرکے پھر اس سے پھر گئے انھیں آخرت میں بڑا سخت عذاب ہوگا۔ الایہ کہ مجبور کر دیا جائے: اگر کوئی مسلمان مصیبتوں اور سختیوں سے گھبرا کر یا جان کے خطرہ کے وقت منہ سے کوئی کلمہ کفر کہہ دے بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر بد ستور قائم ہو تو اس بات کی رخصت ہے۔ اس کا قصہ صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ ، خود ان کے باپ یاسر اور ان کی ماں سمیہ سب ابو جہل سردار قریش مکہ کے غلام تھے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کے سامنے ان کے والد کو شہید کیا گیا۔ اور ابوجہل لعین نے ان کی والدہ کی شرمگاہ میں نیزہ مار کر انھیں شہید کر دیا ان حالات میں آپ رضی اللہ عنہ نے مجبور ہو کر وہ سب کچھ کہہ دیا جو کافر آپ رضی اللہ عنہ سے کہلوانا چاہتے تھے۔ پھر اسی وقت آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی ’’یارسول اللہ! میں نے ایسے اور ایسے حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بُرا بھلا کہا، اور ان کے معبودوں کا ذکر خیر کیا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اپنے دل کی کیفیت بتاؤ‘‘ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کہنے لگے ’’میرا دل تو پوری طرح ایمان پر مطمئن ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ اچھا اگر وہ پھر تم سے ویسا ہی سلوک کریں تو تم پھر اس رخصت سے فائدہ اُٹھا لینا۔‘‘ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ (تفسیر طبری: ۱۷/ ۳۰۴)