وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ ۚ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللَّهُ بِهِ ۚ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
اور اس عورت کی طرح نہ ہونا جس نے بڑی محنت [٩٥] سے سوت کاتا پھر خود ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ تم اپنی قسموں کو باہمی معاملات میں مکرو فریب کا ذریعہ بناتے ہو کہ ایک جماعت دوسری سے ناجائز فائدہ حاصل کرے۔ اللہ تو ان (قسموں اور معاہدوں) کے ذریعہ [٩٦] تمہاری آزمائش کرتا ہے۔ اور قیامت کے دن تم پر یقیناً اس بات کی وضاحت کر دے گا جس سے تم اختلاف کیا کرتے تھے
عہدوپیمان کی حفاظت: جوعہدوپیمان کی حفاظت نہ کریں اللہ تعالیٰ ان کے فعل سے علیم و خبیر ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ مکہ میں ایک عورت تھی جس کی عقل میں فتورتھا، سوت کاتنے کے اور ٹھیک ٹھاک مضبوط ہوجانے کے بعد اسے بے وجہ توڑتاڑکرپھرٹکڑے ٹکڑے کردیتی۔ (تفسیرابن کثیر، طبری) عورت کی مثال دیتے ہوئے فرمایاکہ تم بھی اپنے معاہدات کوکچے دھاگے کی طرح نہ سمجھوکہ جب چاہااپنامعاہدہ توڑ دیا، ابوداؤد میں روایت ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور شاہ روم میں ایک مدت تک کے لیے صلح نامہ ہوگیاتھااس مدت کے خاتمے کے قریب آپ نے مجاہدین کوسرحدروم کی طرف روانہ کیاکہ وہ سرحدپرپڑاؤڈال لیں اورمدت ختم ہوتے ہی دھاوا بول دیں تاکہ رومیوں کوتیاری کاموقع نہ ملے۔ جب عمرو بن عنبسہ رضی اللہ عنہ کویہ خبرہوئی توآپ امیر المومنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اورکہنے لگے!اللہ اکبر۔اے معاویہ رضی اللہ عنہ عہدپوراکر۔غدراوربدعہدی سے بچ ۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سناہے۔کہ جس قوم سے عہدمعاہدہ ہوجائے توجب تک مدت صلح ختم نہ ہوجائے،کوئی گرہ کھولنے کی بھی اجازت نہیں یہ سنتے ہی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکروں کوواپس بلالیا۔ (ابو داؤد: ۲۷۵۹) اَرْبٰی: کے معنی اکثرکے ہیں یعنی جب تم دیکھوکہ تم زیادہ ہوگئے ہوتواپنے زعم کثرت میں حلف توڑدو۔جب کہ قسم ومعاہدے کے وقت وہ گروہ کمزورتھا،لیکن کمزوری کے باوجودمطمئن تھاکہ معاہدے کی وجہ سے ہمیں نقصان نہیں پہنچایاجائے گا،لیکن تم غدراورنقص عہدکرکے نقصان پہنچاؤ۔زمانہ جاہلیت میں اخلاقی پستی کی وجہ سے اس قسم کی عہدشکنی عام تھی،مسلمانوں کواس اخلاقی پستی سے روکاگیاہے۔اوریہ بھی مطلب ہے کہ جب ایک قوم سے معاہدہ کرلیا پھردیکھاکہ دوسری قوم ان سے زیادہ قوی ہے اس سے معاملہ کر لیااوراگلے معاہدے کوتوڑدیا۔یہ سب منع ہے۔اللہ تعالیٰ پابندی وعدہ کے حکم سے تمہاری آزمائش کرتاہے۔