سورة النحل - آیت 71

وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ ۚ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

نیز اللہ نے تمہیں رزق کے معاملہ میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دے رکھی ہے۔ پھر جن لوگوں کو رزق زیادہ دیا گیا ہے وہ ایسے تو نہیں جو زائد رزق کو اپنے غلاموں کی طرف لوٹا دیں تاکہ آقا و غلام سب رزق کے معاملہ میں برابر ہوجائیں۔ کیا پھر وہ اللہ کی نعمتوں کا ہی انکار [٧٠] کرتے ہیں

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

مشرکین کی جہالت کاایک اندازہ: یہ خطاب مشرکوں سے ہے اور شرک کی تردید کے لیے ایک عام فہم دلیل پیش کی گئی ہے۔ یعنی تم میں سے ایک شخص صاحب مال و جائیداد ہیں اور اس کے کئی غلام بھی ہیں تو کیا وہ یہ گوارا کرے گا کہ اپنی ساری دولت اپنے غلاموں میں اس طرح تقسیم کردے کہ اس کااپنا حصہ بھی غلام کے برابر ہوجائے ۔ ظاہر ہے کہ کوئی مالک ایسا گوار انھیں کسکتا ۔ پس اللہ تعالیٰ ان سے سوال کرتاہے کہ جب تم اپنے غلاموں کی اپنے مال میں شرکت پسند نہیں کرتے تو پھر میرے غلاموں کو میری الوہیت میں کیسے شریک ٹھہرا رہے ہو۔ سورۂ روم میں ارشاد ہے: ﴿ضَرَبَ لَكُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِكُمْ هَلْ لَّكُمْ مِّنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ مِّنْ شُرَكَآءَ فِيْ مَا رَزَقْنٰكُمْ فَاَنْتُمْ فِيْهِ سَوَآءٌ﴾ (الروم: ۲۸) ’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایک مثال خود تمہاری ہی بیان فرمائی،جوکچھ ہم نے تمہیں دے رکھاہے ۔ کیا اس میں تمہارے غلاموں میں سے بھی کوئی تمہارا شریک ہے کہ تم اور وہ اس میں برابر درجے کے ہو۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ کب یہ پسند کرے گا کہ تم کچھ لوگوں کو، جو اللہ ہی کے بندے اور غلام ہیں،اللہ کے شریک اور اس کے برابر قرار دے دو۔ یہی اللہ کی نعمتوں کا انکار ہے کہ اللہ ہر چیز کا مالک ومختار ہے۔ اس نے تم کو یہ سب نعمتیں عطا فرمائیں اب چاہیے تو یہ تھاکہ تم اس کا شکریہ ادا کرتے اور اس کی بندگی کرتے، لیکن تم لوگوں نے جو اللہ کے مملوک اور غلاموں کو اللہ کے ساتھ برابر کاشریک بنادیا۔ اس سے بڑھ کر بھی اللہ کے ساتھ ناانصافی، اس کی احسان ناشناسی اور اس کی نعمتوں کاانکار ہوسکتاہے۔ مخلوق اور مملوک کبھی شریک نہیں بن سکتے: یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر کوئی مالک اپنے غلام کو کسی چیز کا مالک یا اس میں تصرف کا اختیار دے بھی دے تو یہ سب کچھ عارضی ہوگا۔ حقیقتاً ان چیزوں کامالک بھی اصل مالک ہی ہوگا جیسے ہم کہتے ہیں کہ ہر چیز کامالک اللہ تعالیٰ ہے تو نتیجہ یہ نکلا کہ مالک اور غلام برابر نہیں ہوسکتے ۔ چونکہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی مخلوق و مملوک ہے ۔ لہٰذا وہ صفات الوہیت میں اس کی شریک نہیں ہوسکتی۔