وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ ۚ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ قَدِيرٌ
اللہ نے تمہیں پیدا کیا پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے اور تم میں سے کچھ لوگوں کو رذیل [٦٩] ترین عمر تک پہنچایا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد وہ کچھ نہ جانے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور قدرت والا ہے
ان خارجی مثالوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کی اپنی مثال پیش کی ہے کہ پہلے وہ بچہ ہوتاہے۔ اپنی تربیت کے لیے خوراک کھاتا ہے جس سے اس کا قد، اس کی ہمت، عقل و علم میں اضافہ ہوتا رہتاہے۔ پھر ایک خاص حد تک جا کر رک جاتاہے پھر وہی غذائیں کھاتا ہے مگر اس کے اثرات بالکل برعکس ہوتے ہیں۔ جسم کمزور ہونے لگتاہے، عقل کم ہونے لگتی ہے، یا داشت کمزور ہوتی جاتی ہے، اعضاء مضمحل ہونے لگتے ہیں، بچوں کی سی باتیں،بچوں کی سی ضدیں کرنے لگ جاتاہے۔ حتیٰ کہ اسے تن بدن کا ہوش بھی نہیں رہتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پچھترسال کی عمر میں عموماً انسان ایسا ہی ہوجاتاہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں فرماتے تھے: ’’ أَللّٰہُمَّ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْکَسْلِ وَالْہَرَمِ وَ اَرْذَلِ الْعُمُرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ وَ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ‘‘ یعنی ’’الٰہی میں بخل سے، عجز سے بڑھاپے سے، ذلیل عمر سے، قبر کے عذاب سے، دجال کے فتنے سے،زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ طلب کرتاہوں۔‘‘(بخاری: ۴۷۰۷)