وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ
نیز آپ کے پروردگار نے شہد کی مکھی کی طرف [٦٥] وحی کی کہ پہاڑوں میں، درختوں میں اور (انگور وغیرہ کی) بیلوں میں اپنا [٦٦] گھر (چھتا) بنا
وحی سے کیا مراد ہے: یہاں وحی سے مراد الہام و ہدایت اور ارشاد ہے ۔ شہدکی مکھیوں کو اللہ کی جانب سے یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ وہ پہاڑوں میں، درختوں میں اور چھتوں میں شہد کے چھتے بنائیں۔ اس کمزور سی مخلوق کے اس گھر کو دیکھئے، کتنا مضبوط، کیسا خوبصورت اور کیسی کاریگری سے بناہوتا ہے۔ پھر اسے ہدایت کی اور اس کا مقدر کردیا کہ یہ پھلوں، پھولوں، گھاس،پھوس کے رس چوستی پھرے اور جہاں چاہے آئے جائے لیکن واپس لوٹتے وقت سیدھی اپنے چھتے کو پہنچ جائے ۔ بلند پہاڑ کی چوٹی ہو، چاہے بیابان کے درخت ہوں، آبادی کے بلند مکانات ہوں اور ویرانے کے سنسان کھنڈر ہوں، یہ نہ راستہ بھولے نہ بھٹکتی پھرے،خواہ کتنی ہی دور نکل جائے لوٹ کر اپنے چھتے میں اپنے بچوں، انڈوں اور شہد میں پہنچ جائے،اپنے پروں سے موم بنائے، اپنے منہ سے شہد جمع کرے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’فَاسْلُكِيْ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا‘‘ کامعنی اپنی سرکشی کی خُو چھوڑ کر خوشی سے اطاعت پر آمادہ ہوجانا، یارام و مسخر ہو جانا اور (ذُلُلًا) کو اگر راہوں کی صفت تسلیم کیاجائے تو مطلب یہ ہوگاکہ مکھی کے لیے یہ راہیں خواہ کس قدر دور دراز ہوں یا پُر پیچ ہوں اللہ نے اس کے لیے نرم اور آسان بنادی ہیں اور اگر اس لفظ کو مکھی کی صفت قرار دیا جائے تو مطلب یہ ہوتاہے کہ جو طور طریقے تیرے لیے اللہ نے مقرر کررکھے ہیں برضا و رغبت ان پر عمل پیرا رہ۔ شہد میں شفا اور دوسری خصوصیات: شہد کے کئی رنگ ہوتے ہیں زرد، سفیدی مائل، سرخی مائل یا سیاہی مائل جیسے پھول اور جیسی زمین، تاہم ہر قسم کی شہد شفا بھی ہے ۔ بہت سی بیماریوں کو اللہ تعالیٰ اس سے دور کردیتاہے۔ صحیح بخاری کی حدیث میں آتاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حلو ا (میٹھی چیز ) اورشہد پسند تھا۔ ایک دوسری روایت میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزوں میں شفا ہے۔ شہد پینے میں، پچھنے لگانے میں اور آگ سے داغ دینے میں مگر میں اپنی اُمت کو داغنے سے منع کرتاہوں۔ (بخاری: ۵۶۸۱) اللہ تعالیٰ کے محیرالعقول کارنامے: شہدکی دوسری اہم خاصیت یہ ہے کہ جو اشیاء شہد میں رکھی جائیں وہ بڑی مدت تک اس میں برقرار وبحال رہتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اطباء ادویہ کو کوٹ چھان کر چینی کی بجائے شہد ملا کر معجون تیار کرتے ہیں جس سے سہ گناہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ (۱)۔ مٹھاس کی جگہ کام دیتی ہے۔ (۲)۔ ادویہ کے اثر کو تا دیر محفوظ رکھتی ہے۔ (۳)۔ شہد بذات خود کئی امراض کا علاج ہے ۔ اس لحاظ سے دواؤں کی تاثیر کئی گنابڑھادیتی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ شہد کی مکھی بذات خود ایک زہریلا جانور ہے ۔ انسان کو ڈس جائے تو اس کی جلد سخت متورم اور اس میں سوزش پیداہوجاتی ہے اور اس کے اندر سے نکلا ہو شہد اکثر بیماریوں کے لیے شفا اور ایک شیریں لذیذ غذا کا کام بھی دیتاہے۔ مندرجہ بالا مشروبات کاذکر محض اس لیے نہیں کیا کہ انسان کو بتایا جائے کہ اللہ نے اس کے لیے کس قدر مفید اور لذیذ اشیاء پیداکی ہیں بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ انسان یہ سوچے کہ اللہ نے جو پھل، مویشی یا جاندار پیداکئے ہیں ان سب کے ماحصل سے انسان ہی فائدہ اُٹھاتاہے۔ پھر اللہ کی ان معجزہ نما قدرتوں میں بھی غور وفکر کرے کہ اللہ کے سوا ان چیزوں کو کوئی اور بناسکتاہے۔ یا ان کی جبلت میں فطری تعلیم ودیعت کرسکتاہے ۔ ان سب چیزوں پر غور و فکر کرنے والوں کے لیے اللہ کی عظمت، خالقیت، مالکیت کی بڑی نشانیاں ہیں اسی سے لوگ اپنے قادر،حکیم، علیم، کریم، رحیم ہونے پر دلیل حاصل کرسکتے ہیں اور پھر انھیں شریک بنانے کی ضرورت ہی کہاں پیش آتی ہے۔