وَجَاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ
اتنے میں شہر والے خوشی خوشی لوط کے ہاں [٣٤] آپہنچے
قوم لوط کی خرمستیاں: ادھر حضرت لوط علیہ السلام کے گھر میں قوم کی ہلاکت کایہ فیصلہ ہو رہاتھا، ادھر قوم لوط کو پتہ چلا کہ لوط علیہ السلام کے گھر خوش شکل نوجوان مہمان آئے ہیں جن کی مخبری حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی نے کی تھی تو وہ اپنی مرد پرستی کی وجہ سے خوشی خوشی حضرت لوط علیہ السلام کے پاس آئے اور مطالبہ کیاکہ ان نوجوانوں کو ان کے سپرد کیاجائے تاکہ وہ ان سے بے حیائی کا ارتکاب کرکے اپنی تسکین کرسکیں۔ حضرت لوط علیہ السلام نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ مہمان ہیں میں انھیں کس طرح تمہارے حوالے کرسکتاہوں اس میں میری رسوائی ہے۔ انہوں نے نہایت ڈھٹائی اور بداخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہاکہ ’’اے لوط تو ان اجنبیوں کاکیا لگتاہے؟ اور کیوں ان کی حمایت کرتاہے کیا ہم نے تجھے منع نہیں کیاکہ تو اجنبیوں کی حمایت نہ کیا کر یا ان کو اپنا مہمان نہ بنایا کر۔ تب آپ علیہ السلام نے انھیں مزید سمجھانے کے لیے کہاکہ تمہاری عورتیں جو میری لڑکیاں ہیں وہ خواہش پوری کرنے کی چیزیں ہیں نہ کہ یہ یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کا روحانی باپ ہوتاہے ۔ لہٰذا آپ میری قوم کی بیٹیوں کے بھی روحانی باپ تھے ۔ چونکہ یہ لوگ اپنی خرمستی میں تھے اور جو قضا و عذاب ان کے سروں پر جھوم رہاتھا اس سے غافل تھے اس لیے خدائے تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کی قسم کھا کر ان کی یہ حالت بیان فرما رہاہے۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت تعظیم وتکریم ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان سے زیادہ اکرم و افضل کوئی جان پیدانھیں کی ۔ مجھے یہ معلوم نہیں ہوسکاکہ اللہ تعالیٰ تو حاکم مطلق ہے ۔ وہ جس کی چاہے قسم کھائے تاہم کسی اور کے لیے اللہ تعالیٰ کے سوا قسم کھانا جائز نہیں۔ آل لوط کاعبرتناک انجام: سورج نکلنے کے وقت آسمان سے ایک دل دہلا دینے والی اور جگر پاش پاش کردینے والی چنگھاڑ کی آواز آئی اور ساتھ ہی ان کی بستیاں اوپر کو اٹھیں ۔ آسمان کے قریب پہنچ کر وہاں سے الٹ دی گئیں۔ اوپر کاحصہ نیچے اور نیچے کا اوپر ہوگیا ۔ ساتھ ان پر آسمان سے کنکرآلود پکی مٹی کے پتھر برسے اس طرح گویا ان کو تین قسم کے عذابوں سے دوچار کرکے نشان عبرت بنادیاگیا۔