قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ
پھر ان سے پوچھا : ’’اے اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتو! تمہارا کیا معاملہ [٣١] ہے؟‘‘
ان فرشتوں کی آمد سے حضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھ گئے کہ یہ کسی خاص مقصد کے لیے آئے ہیں، لہٰذا آپ علیہ السلام نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ تمہاری اس طرح آمد کی غرض و غایت کیا ہے؟ گویا آپ ان فرشتوں کی آمد سے فی الواقع ڈر رہے تھے ۔ یہ فرشتے جب لوط علیہ السلام کے ہاں آئے تو خوبصورت اور بے ریش جوانوں کی صورت میں آئے ۔ سیدنا لوط علیہ السلام کے لیے یہ مہمان بالکل اجنبی تھے ۔ آپ اپنی قوم کے حال کو جانتے تھے اور نوجوان جو خوبصورت تھے دل ہی دل میں پیش آنے والے حالات سے سخت خوفزدہ تھے فرشتوں نے آپ کو اصل صورت حال بتلا کر اس خوف کو دور کردیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم ان بدکرداروں کی بستیاں الٹنے کے لیے آئے ہیں مگر حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی آل نجات پالے گی ۔ ہاں ان کی بیوی نہیں بچ سکے گی۔ وہ قوم کے ساتھ رہ جائے گی اور ہلاکت میں ان کے ساتھ ہی ہلاک ہوگی۔