يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ذَٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اے ایمان والو! قتل کے مقدمات میں تم قصاص [٢٢٢] فرض کیا گیا ہے اگر قاتل آزاد ہے تو اس کے بدلے آزاد ہی قتل ہوگا۔ غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ہی قتل کی جائے گی۔ پھر اگر قاتل کو اس کے (مقتول) بھائی (کے قصاص میں) سے کچھ معاف [٢٢٣] کردیا جائے تو معروف طریقے سے (خون بہا) کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل یہ رقم بہتر طریقے سے (مقتول کے وارثوں کو) ادا کردے۔ یہ (دیت کی ادائیگی) تمہارے رب کی طرف سے رخصت اور اس کی رحمت ہے اس کے بعد جو شخص زیادتی کرے [٢٢٤] اسے درد ناک عذاب ہوگا۔
زمانۂ جاہلیت میں کوئی نظم و قانون نہ تھا۔ اس لیے زور آور قبیلے کمزور قبیلوں پر جس طرح چاہتے ظلم و جور کا ارتکاب کرلیتے۔ جس كی ایک شکل یہ تھی کہ اگر کسی طاقت ور قبیلے کا کوئی شخص قتل ہوجاتا تو وہ قاتل کو قتل کرنے کے بجائے کئی مردوں بلکہ بسا اوقات پورے قبیلے کو ہی تہس نہس کرنے کی کوشش کرتے اور عورت کے بدلے مرد کو اور غلام کے بدلے آزاد کو قتل کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فرق و امتیاز کو ختم کرتے ہوئے فرمایا کہ جو قاتل ہوگا (قصاص) بدلے میں اسی کو قتل کیا جائے گا ۔ قاتل آزاد ہے تو بدلے میں آزاد۔ غلام ہے تو بدلے میں غلام، عورت ہے تو بدلے میں عورت، تمام مسلمانوں کے خون برابر ہیں مرد ہو یا عورت۔ معافی سے مراد: فریقین آپس میں سمجھوتہ کرسکتے ہیں۔ مقتول کے ورثہ کو فیصلہ کا حق ہے كہ (۱) وہ خون بہالینا چاہے تو معروف طریقے سے۔ (۲) اور اگر رضائے الٰہی کے لیے بغیر دیت یعنی معاوضہ لیے بغیر معاف کرنا چاہیں تو كر سكتے ہیں۔ قصاص: قصاص میں لوگوں کے لیے عبرت ہے یعنی صرف جان کا بدلہ جان ہی نہیں بلکہ دانت کا بدلہ دانت اور زخموں کا بدلہ زخم ہے۔ تخفیف اور رحمت: اللہ تعالیٰ نے جہالت اور ناانصافی کے قانون کو ختم کرکے عدل قائم کیا ہے۔ قتل کی حوصلہ شکنی کی۔ انتقامی جذبے سے روکا ہے۔ جان کے بدلے جان لی جائے گی لیکن اگر معاف کردے تو آپس میں راضی نامہ ہوسکتا ہے۔ اللہ کے قانون کے مطابق معافی، قصاص اور دیت ۔ یہ اللہ کی طرف سے مہربانی رحمت اور تخفیف ہے۔ اہل تورات میں قصاص اور معافی تھی اور عیسائیوں میں دیت تھی۔ حدیث میں ہےكہ ((اَلْمُسْلِمُوْنَ تَتَکَافَأُدِمَائَہُمْ)) ’’یعنی مسلمانوں کے خون آپس میں یکساں ہیں‘‘ (ابوداؤد: ۲۷۵۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے‘‘۔ ( بخاری :۶۹۱۵)