سورة ابراھیم - آیت 31

قُل لِّعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خِلَالٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(اے نبی)! میرے ان بندوں کو جو ایمان لائے ہیں کہہ دیجئے کہ وہ نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے انھیں دے رکھا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کیا کریں قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی اور نہ دوستی کام آئے گی

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی اطاعت کا اور اپنے حق ماننے کا اور خلق خدا سے احسان و سلوک کرنے کا حکم دے رہاہے۔ نماز قائم کریں سے مراد کہ اسے اپنے وقت پر تعدیل ارکان کے ساتھ خشو ع و خضوع کے ساتھ قائم کیاجائے۔جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ زکوٰۃ ادا کرتے رہیں: انفاق کامطلب زکوٰۃ ادا کی جائے، اقارب کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے اور دیگر ضرورت مندوں پر احسان کیاجائے یہ نہیں کہ اپنی ذات اور اپنی ضروریات پر تو بے دریغ خرچ کیاجائے اور اللہ تعالیٰ کی بتلائی ہوئی جگہوں پر خرچ کرنے سے گریز کیاجائے ۔ قیامت کے دن ایسا ہوگاکہ جہاں نہ خرید وفروخت ہوگی نہ کوئی دوستی ہی کسی کے کام آئے گی۔ کوئی اپنے آپ کو بطور فدیہ کے بیچنا بھی چاہے تو بھی ممکن نہ ہو گا، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَالْيَوْمَ لَا يُؤْخَذُ مِنْكُمْ فِدْيَةٌ وَّ لَا مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا﴾ (الحدید: ۱۵) ’’یعنی آج تم سے اور کافروں سے کوئی فدیہ نہ لیا جائے گا۔‘‘ وہاں کسی کی دوستی سے کوئی چھوٹے گانھیں بلکہ وہاں عدل وانصاف ہی ہوگا۔ سورۃ بقرۃ ۴۸میں فرمایا :۔ اے ایمان والو! جوہم نے تمہیں دے رکھاہے تم اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ کاروبار ہے، نہ دوستی نہ (شفاعت ) کافر ہی دراصل ظالم ہیں۔