سورة الرعد - آیت 16

قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّهُ ۚ قُلْ أَفَاتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ ۗ أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ ۚ قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

آپ ان سے پوچھئے کہ : آسمانوں اور زمین کا رب کون ہے؟ کہہ دیجئے : اللہ ہے۔ پھر کہئے : کیا تم نے ایسے معبودوں کو اپنا کارساز بنا لیا ہے جو اپنے بھی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے؟ پھر پوچھئے : ''کیا نابینا اور بینا برابر ہوسکتے ہیں؟ یا کیا اندھیرے اور روشنی برابر ہوسکتے ہیں؟ یا جنہیں ان لوگوں نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے انہوں نے بھی اللہ کی مخلوق کی طرح کی کوئی مخلوق پیدا کی ہے۔ جو ان پر [٢٤] مشتبہ ہوگئی ہے؟آپ کہئے کہ اللہ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ اکیلا ہے، زبردست ہے،

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اندھیرا اور روشنی: اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، مشرکین بھی اس کے قائل ہیں کہ زمین و آسمان کا رب اور مدبر اللہ ہی ہے۔ اس کے باوجود دوسرے اولیاء اللہ کی عبادت کرتے ہیں حالانکہ وہ سب بھی عاجز بندے ہیں انھیں تو اپنے نفع و نقصان پر کوئی اختیار نہیں۔ یہ تو اندھیروں میں ہیں۔ جس طرح اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے، اسی طرح موحد اور مشرک برابر نہیں ہو سکتے اس لیے کہ موحد کا دل توحید کی بصیرت سے معمور ہوتا ہے۔ جب کہ مشرک اس سے محروم ہے۔ موحد کی آنکھیں ہیں وہ توحید کا نور دیکھتا ہے۔ اور مشرک کو یہ نور توحید نظر نہیں آتا۔ اس لیے وہ اندھا ہے اسی طرح جس طرح اندھیریاں اور روشنی برابر نہیں ہو سکتی۔ ایک اللہ کا پجاری جس کا دل نورانیت سے بھرا ہوا ہے۔ اور ایک مشرک جو جہالت و توہمات کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہوتا ہے برابر نہیں ہو سکتے۔ وہ اکیلا ہی پیدا کرنے والا ہے: یعنی تخلیق کائنات میں ان کے معبودوں کا کوئی حصہ نہیں اور یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ خالق اپنے مخلوق پر پورا پورا تصرف رکھتا ہے۔ اب جبکہ تمھارے معبودوں نے کوئی چیز بنائی ہی نہیں تو وہ تصرف کائنات میں شریک کیسے بن گئے اور تمھیں یہ کہاں سے شک پیدا ہو گیا ہے کہ وہ بھی تصرف کائنات میں شریک اور حصہ دار ہیں۔ قرآن میں ایک جگہ ان کا مقولہ بیان فرمایا ہے۔ ﴿مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَا اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى﴾ (الزمر: ۳) ’’ہم لوگ ان کی عبادت صرف اس لالچ میں کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں۔‘‘ ان کے اس اعتقاد کی نفی کرتے ہوئے ارشاد ربانی ہوا کہ اس کے پاس کوئی بھی اس کی اجازت کے بغیر لب نہیں ہلا سکتا۔ آسمانوں کے فرشتے بھی شفاعت اس کی اجازت کے بغیر کر ہی نہیں سکتے۔ سورہ مریم میں فرمایا زمین و آسمان کی تمام مخلوق اللہ کے سامنے غلام بن کر آنے والی ہے۔ سب اس کی نگاہ میں اور اس کی گنتی میں ہیں اور ہر ایک تنہا تنہا اس کے سامنے قیامت کے دن حاضری دینے والا ہے۔ پس جب کہ سب کے سب بندے اور غلام ہونے کی حیثیت میں یکساں ہیں، پھر ایک کا دوسرے کی عبادت کرنا حماقت اور کھلی بے انصافی نہیں تو اور کیاہے۔