لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ ۖ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَيْءٍ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ ۚ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ
اسی کو پکارنا برحق [٢١] ہے اور جو لوگ اس کے علاوہ دوسروں کو پکارتے ہیں وہ انھیں کچھ بھی جواب نہیں دے سکتے۔ انھیں پکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف اپنے ہاتھ اس لئے پھیلائے کہ پانی اس کے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ پانی کبھی اس کے منہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ کافروں کی پکار بھی ایسے ہی (راہ میں) گم ہوجاتی ہے
دعوت حق: حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ اللہ کے لیے دعوت حق ہے: اس سے مراد توحید ہے خوف اور اُمیدکے وقت اسی ایک اللہ کو پکارنا صحیح ہے کیونکہ وہی ہر ایک کی پکار سنتا اور قبول فرماتا ہے۔ مشرکین جو دوسرے معبودوں کو پکارتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی پیاسا پانی دیکھ کر ہاتھ پھیلاتے ہوئے اسے پکارے کہ آؤ میری پیاس بجھاؤ۔ ظاہر ہے کہ نہ تو پانی پیاسے کی پکار سن سکتا ہے نہ اس کے پاس آنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اسی طرح معبود ان باطل کو ہزار بار بھی پکارا جائے تو وہ کچھ سن ہی نہیں سکتے وہ تو ایسے بے بس ومجبورِ محض ہیں کہ دعا قبول کرنے کی قدرت ہی نہیں رکھتے اب وہ خود ہی سوچ لیں کہ انھیں پکارنے کا کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔