رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ
اے میرے پروردگار! تو نے مجھے حکومت بھی عطا کی اور خوابوں کی تعبیر بھی سکھائی۔ تو آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے اور تو ہی دنیا اور آخرت [٩٦] میں میرا سرپرست ہے۔ اسلام پر میرا خاتمہ کر اور مجھے نیک لوگوں میں شامل کرلے
سیدنا یوسف علیہ السلام کی اپنے حق میں دعا: باپ اور بھائیوں سے خطاب کے بعد سیدنا یوسف علیہ السلام نے اس ہستی کی طرف متوجہ ہوئے جس نے آپ پر بہت سے احسانات فرمائے تھے پہلے ان احسانات کو ذکر کیا جیسے مجھے دنیوی نعمتیں تو نے عطا کی ہیں ان نعمتوں کو آخرت میں پوری فرما۔ اور جب مجھے موت آئے تو اسلام پر اور تیری فرمانبرداری پر آئے اور میں نیک لوگوں میں ملا دیا جاؤں اس سے مراد حضرت یوسف علیہ السلام کے آباء و اجداد۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام وغیرہ ہیں۔ بعض لوگوں کو اس دعا سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے موت کی دعا مانگی تھی۔ حالانکہ یہ موت کی دعا نہیں ہے آخر وقت تک اسلام پر اقامت کی دعا ہے۔ صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انتقال کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی اُٹھائی اور یہ دعا کی کہ اے اللہ! رفیق اعلیٰ میں ملا دے تین مرتبہ آپ نے یہی دعا کی۔ (بخاری: ۲۲۱۳) ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یوسف علیہ السلام کی دعا کا مقصود یہ ہے کہ جب بھی وفات آئے اسلام پر آئے اور نیکوں میں مل جاؤں یہ نہیں کہ اس وقت آپ نے اپنی موت کی دعا کی ہو۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’تم میں سے کوئی کسی سختی او رضرر سے گھبرا کر موت کی آرزو نہ کرے اگر اسے ایسی ہی تمنا کرنی ضروری ہے تو یوں کہے، اے اللہ جب تک میری حیات تیرے علم میں میرے لیے بہتر ہے۔ مجھے زندہ رکھ اور جب تیرے علم میں میرے موت میرے لیے بہتر ہو مجھے موت دے دے۔‘‘ (مسند احمد: ۳/ ۱۰۱، ح: ۱۱۹۸۰)