سورة یوسف - آیت 89

قَالَ هَلْ عَلِمْتُم مَّا فَعَلْتُم بِيُوسُفَ وَأَخِيهِ إِذْ أَنتُمْ جَاهِلُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یوسف نے ان سے پوچھا : پتا ہے تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا جبکہ تم نادان [٨٦] تھے؟

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یوسف علیہ السلام کا اپنا آپ بتلا دینا: جب انھوں نے نہایت عاجزی کے انداز میں صدقہ و خیرات یا بھائی کی رہائی کی اپیل کی تو ساتھ ہی باپ کے بڑھاپے، ضعف اور بیٹے کی جدائی کے صدمے کا ذکر بھی کیا تو یوسف علیہ السلام کا دل بھر آیا۔ اپنے سر سے تاج اتار دیا اور بھائیوں سے پوچھا ’’کچھ وہ واقعہ بھی یاد ہے کہ تم نے جو سلوک اپنے بھائی یوسف علیہ السلام سے کیا تھا پھر اس کے بعد اپنے چھوٹے بھائی بنیامین سے کرتے رہے ہو؟ وہ نری جہالت کا کرشمہ تھا، یہ انداز اس لیے اختیار کیا گیا کہ بھائیوں کو مزید ندامت نہ ہو یعنی جو کچھ تم کرتے رہے ہو وہ ناسمجھی یا بے وقوفی کی بنا پر کرتے رہے ہو۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيْنَ عَمِلُوا السُّوْٓءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوْا مِنۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْا اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ﴾ (النحل: ۱۱۹) ’’جو کوئی جہالت سے برے عمل کرے۔ پھر توبہ کرے اور اصلاح بھی کرے تو پھر آپ کا رب بلاشک و شبہ بخشش کرنے والا اور نہایت ہی مہربان ہے۔‘‘ اس لیے بعض سلف فرماتے ہیں کہ اللہ کا ہر گناہگار جاہل ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پہلی دو مرتبہ کی ملاقات میں یوسف علیہ السلام کو اپنے آپ کو ظاہر کرنے کا حکم الٰہی نہ تھا۔ اب کی مرتبہ حکم ہو گیا جب تکلیف بڑھ گئی، سختی زیادہ ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے راحت دے دی اور کشادگی عطا فرما دی۔