قَالُوا إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ ۚ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ ۚ قَالَ أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۖ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ
برادران یوسف کہنے لگے : اگر اس نے چوری کی ہے تو اس سے بیشتر اس کا بھائی (یوسف) بھی [٧٤] چوری کرچکا ہے۔ یوسف نے (ان کے اس الزام کو) دل میں چھپائے رکھا اور ان پر کچھ ظاہر نہ ہونے دیا اور (زیر لب) کہنے لگے : تم بہت [٧٥] ہی برے لوگ ہو۔ یہ جو کچھ تم بیان کر رہے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے
سیدنا یوسف پر چوری کا الزام: چند لمحے پیشتر برادران یوسف یہ اعلان کر رہے تھے کہ ہم لوگ شریف زادے ہیں چور یا فساد کرنے والے نہیں پھر اسی مقام پر بنیامین پر چوری کے الزام کو درست تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے بڑے بھائی یوسف علیہ السلام پر چوری کا الزام جڑ دیا۔ اس مقام پر بھی سیدنا یوسف علیہ السلام نے پیغمبرانہ صبر و تحمل سے کام لیا۔ البتہ ان کے دل میں یہ خیال ضرور آیا کہ یہ اخلاقی لحاظ سے کس قدر گر چکے ہیں۔ اپنے آپ کو تو باکردار بااخلاق باور کراتے ہیں اورمحض حسد و عناد کی بنا پر یوسف علیہ السلام اور بنیامین کو چور اور بے ایمان ثابت کرنے کی کوشش کی۔