وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ
ان دونوں میں سے جس شخص کے بارے میں یوسف کو یقین [٤١] تھا کہ وہ قید سے رہا ہونے والا ہے، اسے یوسف نے کہا : اپنے مالک (شاہ مصر) سے میری بابت بھی ذکر کرنا لیکن مالک کے پاس یوسف کا ذکر کرنا اسے شیطان نے بھلا [٤٢] دیا چنانچہ یوسف کئی سال قید میں پڑے رہے
ظن سے مراد یقین ہے: یوسف علیہ السلام کو ساقی کے متعلق یقین تھا کہ وہ قید سے رہا ہو کر اپنی سابقہ ملازمت پر بحال کر دیا جائے گا۔ جب وہ قید خانے سے جانے لگا تو یوسف علیہ السلام نے اس سے کہا کہ بادشاہ سے میرے متعلق بھی تذکرہ کرنا کہ ایک بے قصور آدمی مدت سے قید خانہ میں ڈال دیا گیا ہے اس کی طرف آپ کی توجہ کی ضرورت ہے۔ لیکن رہائی پانے والا ساقی اس بات کو بالکل ہی بھول گیا یہ بھی ایک شیطانی چال تھی جس سے سیدنا یوسف علیہ السلام کئی سال تک قید خانے میں ہی رہے۔ قرآن میں (بضع، سنین) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس کا اطلاق دس سے کم اعداد پر ہوتا ہے۔ اور مفسرین کے مطابق آپ کی قید سات یا نو سال تھی۔