سورة یوسف - آیت 23

وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۚ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جس عورت کے گھر میں وہ رہتے تھے اس نے یوسف کو اپنی طرف ورغلانا چاہا، اس نے دروازے بند کرلیے اور یوسف سے کہنے لگی [٢٢] ’’جلدی آجاؤ‘‘ یوسف نے کہا : اللہ کی پناہ! میرے پروردگار [٢٣] نے تو مجھے بہت اچھی منزلت بخشی (اور میں یہ کام کروں؟) ظالم لوگ یقیناً فلاح نہیں پاتے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

عزیز مصر جس نے آپ کو خریدا تھا اور بہت اچھی طرح اولاد کی مثل رکھا تھا۔ اپنی گھر والی کو بھی تاکیداً کہہ دیا تھا کہ انھیں کسی طرح تکلیف نہ ہو عزت و احترام سے انھیں رکھو۔ حضرت یوسف علیہ السلام نہایت حسین و جمیل تھے۔ نوخیز نوجوانی تھی۔ دوسری طرف عزیز مصر کی بیوی جس کا نام زلیخا تھا۔ جوان تھی اور بے اولاد تھی اور بن سنور کر پوری رعنائیوں سے اپنا آپ پیش کر رہی تھی۔ لیکن یوسف علیہ السلام اس قسم کے جذبات سے بالکل پاک صاف تھے۔ جب زلیخا نے یوسف علیہ السلام کی طرف سے اس قدر بے اعتنائی اور اس میں اپنی توہین کا پہلو دیکھا تو اپنے مالکانہ حقوق استعمال کرتے ہوئے راست اقدام پر اتر آئی ایک دن جب اس کا شوہر گھر پر موجود نہ تھا گھر کے تمام دروازے بندکرتے ہوئے یوسف علیہ السلام کو واشگاف الفاظ اور تحکمانہ انداز میں اپنی طرف بلایا تاکہ اس کے شہوانی جذبات کی تسکین ہو سکے۔ یوسف علیہ السلام نے اس کے پاس جانے کی بجائے اسے جواب دیا کہ میرے پروردگار نے تو مجھ پر اس قدر انعام و اکرام فرمائے ہیں اور میں ایسی بدکاری کا ارتکاب کروں یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا اور صاف انکار کر دیا بعض مفسرین نے اس مقام پر (رب) کے معنی آقا اور مالک لیا ہے۔ اس لحاظ سے حضرت یوسف علیہ السلام نے رب کا لفظ استعمال کرکے فرمایا کہ تیرا خاوند میرا سردار ہے۔ وہ میرے ساتھ حسن سلوک اور احسان سے پیش آتے ہیں، پھر کیسے ممکن ہے کہ میں اس کی خیانت کروں۔