قَالُوا يَا صَالِحُ قَدْ كُنتَ فِينَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَٰذَا ۖ أَتَنْهَانَا أَن نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ
وہ کہنے لگے'': صالح اس سے پہلے تو تو ہماری امیدوں کا سہارا تھا [٧٣] کیا تو ہمیں (ان معبودوں کی) عبادت کرنے سے روکتا ہے جنہیں ہمارے آباء و اجداد پوجتے رہے؟ اور جس بات کی تو دعوت دیتا ہے اس میں ہمیں ایسا شک ہے جس نے ہمیں بے چین [٧٤] کر رکھا ہے
پیغمبر چونکہ اپنی قوم میں اخلاق و کردار، دیانت و امانت میں ممتاز ہوتا ہے۔ اس لیے قوم کو اس سے اچھی اُمیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ اسی لحاظ سے صالح علیہ السلام کی قوم نے بھی ان سے کہا کہ ہم نے تمھیں عقلمند ہونہار اور دیانت دار سمجھ کر اپنی بہت سی توقعات تم سے وابستہ کر رکھی تھیں کہ تم اپنے باپ دادا کا نام روشن کرو گے، تم نے تو الٹا باپ دادا کے دین سے سرکشی اختیار کر لی۔ اور ہمیں بھی باپ دادا کے طریقے سے ہٹانے لگے ہمیں تو تمھاری اس نئی راہبری میں بڑا شک شبہ ہے۔