وَلَوْ أَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِي الْأَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهِ ۗ وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ ۖ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
جس کسی نے بھی ظلم کیا ہوگا اگر اس کے پاس روئے زمین کی دولت بھی ہو [٦٩] تو اس عذاب سے بچنے کے لئے دینے پر آمادہ ہوجائے گا۔ اور جب وہ عذاب دیکھیں گے تو اپنی ندامت [٧٠] کو چھپائیں گے۔ ان کا فیصلہ پورے انصاف سے کیا جائے گا اور ان پر کچھ ظلم نہ ہوگا
آخرت میں صرف وہ اعمال صالحہ کام آئیں گے جو کسی نے اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہوئے اپنے لیے آگے بھیجے ہوں گے، اعمال کے سوا دولت، قرابت داری اور سفارش وغیرہ کچھ کام نہ آئے گی، اول تو وہاں کسی کے پاس ہوگا ہی کیا اور اگر بغرض تسلیم ہے کہ اگر کسی مجرم کے پاس دنیا بھر کے خزانے او رمال و دولت دے دلا کر اپنے آپ کو عزت سے چھڑا لے تویہ ممکن نہ ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ کم سے کم عذاب والے دوزخی سے فرمائیں گے کہ اگر تیرے پاس دنیا و مافیہا کی دولت موجود ہو تو کیا فدیہ میں دے دو گے؟ وہ کہے گا ہاں اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تو تجھ سے دنیا میں اس سے آسان تر بات طلب کی تھی اور کہا تھا کہ (توحید پر) قائم رہے گا تو میں تجھے جہنم میں داخل نہ کروں گا مگر تو شرک پر اڑا رہا۔ (مسلم:۲۸۰۵)