وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللَّهُ شَهِيدٌ عَلَىٰ مَا يَفْعَلُونَ
جس عذاب کا ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں اس کا کچھ حصہ خواہ آپ کے جیتے جی آپ کو دکھلا دیں [٦٢] یا (اس سے پہلے ہی) آپ کو اٹھا لیں۔ انھیں بہرحال ہمارے پاس ہی [٦٣] لوٹ کر آنا ہے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اس پر اللہ گواہ ہے
اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ان کفار کے بارے میں جو وعدہ کیے جارہے ہیں کہ اگر انھوں نے کفر و شرک پر اصرار جاری رکھا تو ان پر بھی اسی طرح عذاب الٰہی آ سکتا ہے جس طرح پچھلی قوموں پر آیا۔ اگر آپ کی زندگی میں ہم ان کفار پر کوئی عذاب اُتاریں یا آپ کو ان عذابوں کے اُتارنے سے پہلے ہی اپنے پاس بلا لیں تب بھی کوئی بات نہیں۔ ان کافروں کابالآخر ہمارے ہی پاس آنا ہے۔ ان کے سارے اعمال و افعال کی ہمیں اطلاع ہے۔ وہاں یہ ہمارے عذاب سے کس طرح بچ سکیں گے؟ یعنی دنیا میں تو ہماری مخصوص حکمت کی وجہ سے ممکن ہے کہ عذاب سے بچ جائیں لیکن آخرت میں تو ان کے لیے ہمارے عذاب سے بچنا ممکن ہی نہیں ہوگا کیونکہ قیامت کے وقوع کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ وہاں اطاعت گزاروں کو ان کی اطاعت کا صلہ اور نافرمانوں کو ان کی نافرمانی کی سزادی جائے۔ (تیسیر القرآن)