بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ
بلکہ انہوں نے اس چیز [٥٥] کو جھٹلا دیا جس کا وہ اپنے علم سے احاطہ نہ کرسکے حالانکہ ابھی تک اس کا مال [٥٦] سامنے ہی نہیں آیا۔ اسی طرح ان لوگوں نے بھی جھٹلا دیا جو ان سے پہلے تھے پھر دیکھ لو، ظالموں کا کیا انجام ہوا ؟
کافر لوگ قرآن پر تدبر اور اس کے معنی پر غور کے لیے بغیر کسی تکذیب پر تل گئے اور اپنی جہالت کی وجہ سے اس علم سے محروم رہ گئے۔ قرآن کریم نے جو پچھلے واقعات اور مستقبل کے امکانات بیان کیے ہیں اس کی پوری سچائی اور حقیقت بھی ان پر واضح نہیں ہوئی اس کے بغیر ہی تکذیب شروع کر دی۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ انھوں نے قرآن پر کماحقہ تدبر کیے بغیر ہی اس کی تکذیب کر دی۔ حالانکہ اگر وہ صحیح معنوں میں اس پر غور و فکر کرتے جو اس کے کلام الٰہی ہونے پر دلالت کرتے ہیں تو یقینا اس کے فہم اور معنی کے دروازے ان پر کھل جاتے یعنی قرآن کریم کے اسرار و معارف اور لطائف و معنی ان پر واضح ہو جاتے۔ یہاں اس کی ایک مثال بیان کی جا رہی ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دار فانی سے رحلت فرما گئے تو اس جانکاہ صدمہ سے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کے اوسان خطا ہو گئے دوسروں کا کیا ذکر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے زیرک او رمدبر صحابی کھڑے ہو کر خطبہ دینے لگے کہ ’’جو شخص یہ کہے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں میں اس کی گردن اُڑا دوں گا‘‘ اتنے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور لوگوں کو مخاطب کرکے یہ آیت پڑھی: ﴿وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اَفَاىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰى اَعْقَابِكُمْ﴾ (آل عمران: ۱۴۴) ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک رسول ہی ہیں جن سے پہلے کئی رسول گزر چکے ہیں اگر وہ فوت ہو جائیں یا مارے جائیں تو کیا تم اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت سنائی تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ آیت آج ہی نازل ہوئی ہے۔ پھر جسے دیکھو یہی آیت پڑھ رہاتھا، حالانکہ یہ آیت مدتوں پہلے نازل ہو چکی تھی۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سیکڑوں مرتبہ اسے پڑھتے بھی رہے مگر اس کی سمجھ اس وقت آئی جب آپ فی الواقع وفات پا گئے۔ اس سے پتہ چلا کہ لاعلمی کی وجہ سے کسی آیت کی سمجھ فوری نہیں آتی۔غور وفکر اور تدبر کرنے سے یا واقعہ کے رونما ہونے سے فوراً سمجھ آجاتی ہے۔ (بخاری: ۴۴۵۴) کافروں کو تنبیہ : کہ تمھاری طرح پچھلی قوموں نے بھی آیات الٰہی کی تکذیب کی تو دیکھ لو ان کا انجام کیا ہوا۔ اگر تم اس کی تکذیب سے باز نہ آئے تو تمھارا انجام بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا۔