سورة التوبہ - آیت 128

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

(لوگو)! تمہارے پاس تمہی میں سے ایک رسول [١٤٨] آیا ہے۔ اگر تمہیں کوئی تکلیف [١٤٩] پہنچے تو اسے گراں گزرتی ہے۔ وہ ( تمہاری فلاح کا) حریص [١٥٠] ہے، مومنوں پر نہایت مہربان [١٥١] اور رحم کرنے والا ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہیں: اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنا احسان عظیم یاد دلا رہا ہے کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے خود انہی میں سے ان ہی کی زبان میں اپنا رسول بھیجا۔ اور تم اسکی زندگی بھر کے حالات و عادات و خصائل سے خوب واقف ہو اور اسکی دیانت، امانت اور صداقت کے شاہد ہو اور جو تمہارے لیے باعث فخر و رحمت ہے۔ مومنوں کی صلاح و فلاح کی شدید حرص: ایسی چیزیں جن سے انسان کو تکلیف ہو۔ اس میں دنیاوی مشقتیں اور اخروی عذاب دونوں میں شامل ہیں۔ اس پیغمبر پر تمہاری ہر طرح کی تکلیف و مشقت گراں گزرتی ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں آسان دین حنفی دے کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘ صحیح بخاری میں ہے کہ ’’بیشک یہ دین آسان ہے۔‘‘ (بخاری: ۳۹) آپ سب سے زیادہ اس بات کے حریص تھے کہ لوگ اخروی عذاب یعنی دوزخ سے بچ جائیں اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ میں تمہیں پشتوں سے پکڑ پکڑ کھینچتا ہوں لیکن تم مجھ سے دامن چھڑا کر زبردستی نار جہنم میں داخل ہوتے ہو ۔ (بخاری: ۵۴۰) دوزخ سے بچنے کا واحد راستہ آپ پر ایمان لاکر آپ کا فرمانبردار بن جانا ہے، یہی وجہ تھی کہ جب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لاتے تو آپ سخت بے قرار ہوجاتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس کیفیت کو قرآن کریم میں متعدد بار دہرایا گیا ہے اگرچہ آپ رحمت للعالمین ہیں تاہم مومنوں کے حق میں آپ کی دو صفات کا یکجا ذکر کیا گیا ہے (۱) رؤف۔ (۲)رحیم۔ رحم کا تعلق تو ہر طرح کے حالات میں یکساں ہے اور رؤ ف اس شخص کو کہتے ہیں جس کا دل کسی پر مصیبت یا سختی دیکھ کر فوراً پسیج جائے اور اسے تر س آنے لگے۔