سورة التوبہ - آیت 118

وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور ان تین آدمیوں [١٣٤] پر بھی (مہربانی کی) جن کا معاملہ ملتوی رکھا گیا تھا۔ حتیٰ کہ زمین اپنی فراخی کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور ان کی اپنی جانیں بھی تنگ ہوگئیں اور انہیں یہ یقین تھا کہ اللہ کے سوا ان کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں۔ پھر اللہ نے ان پر مہربانی کی تاکہ وہ توبہ کریں۔ اللہ تعالیٰ یقیناً توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

جن کا معاملہ ملتوی کردیا گیا تھا: یہ تین صحابہ تھے کعب بن مالک، مرارہ بن ربیعہ اور ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہم۔ یہ تینوں نہایت مخلص مسلمان تھے اس سے پہلے ہر غزوے میں شریک ہوتے رہے۔ جبکہ غزوہ تبوک میں صرف سستی کی وجہ سے شریک نہ ہوئے بعد میں غلطی کا احساس ہوا تو سوچا کہ ایک غلطی پیچھے رہنے کی تو ہو ہی گئی ہے لیکن اب منافقین کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جھوٹا عذر پیش کرنے کی غلطی نہیں کریں گے چنانچہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی غلطی کا صاف اعتراف کرلیا اور اسکی سزا کے لیے اپنے آپ کو پیش کردیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے معاملہ کو اللہ کے سپرد کردیا کہ وہ ان کے بارے میں کوئی حکم نازل فرمائے گا، تاہم اس دوران آپ نے صحابہ کرام ان تینوں افراد سے تعلق قائم رکھنے حتیٰ کہ بات چیت تک کرنے سے روک دیا اور چالیس راتوں کے بعد انھیں حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیویوں سے بھی دو ر رہیں، چنانچہ بیویوں سے جدائی بھی عمل میں آگئی، مزید دس دن گزرے تو توبہ قبول کرلی گئی، اور مذکورہ آیت نازل ہوئی (اس وقت کی پوری تفصیل حضرت کعب بن مالک سے مروی بخاری کی حدیث میں موجود ہے)۔ زمین تنگ ہوگئی: سے ان ایام کی کیفیت مراد ہے جس سے سوشل بائیکاٹ کی وجہ سے انھیں گزرنا پڑا۔ اور پچاس دن کی آہ و زاری کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان تینوں صحابہ کی توبہ قبول فرمائی۔ اور اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔