اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ
انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب [٣١] بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ انہیں حکم یہ دیا گیا تھا کہ ایک اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے پاک ہے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں
اہل کتاب کا اپنے علماء و مشائخ کو رب بنانا: اس آیت کی تفسیر حضر ت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ آیت سن کر عرض کیا کہ یہود و نصاریٰ نے تو کبھی اپنے علماء کی عبادت نہیں کی۔ پھر یہ کیوں کہا گیا کہ انھوں نے ان کو رب بنالیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہ ٹھیک ہے کہ انھوں نے ان کی عبادت نہیں کی لیکن یہ بات تو ہے نا کہ ان کے علماء نے جس کو حلال قرار دے دیا اُسے انھوں نے حلال اور جس چیز کو حرام کردیا، اسے انھوں نے حرام ہی سمجھا، یہی ان کی عبادت کرنا ہے۔‘‘ (ترمذی: ۲۹۵۳) حلال و حرام کا اختیار صرف اللہ کو ہے۔ یہی حق اگر کوئی شخص کسی اور کے اندر تسلیم کرتا ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس کو اپنا رب بنالیا ہے۔ اس آیت میں ان لوگوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے۔ جو اپنے اپنے پیشواؤں کے اقوال کے مقابلے میں قرآنی آیات و حدیث کو اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوتے۔