وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اس کا نام ذکر کرنے سے روکے اور اس کی خرابی کے [١٣٤] درپے ہو؟ انہیں تو یہ چاہیے تھا کہ مسجدوں میں اللہ سے ڈرتے ڈرتے داخل ہوتے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے
جب نصاری یہود پر غالب آئے تو انھوں نے یہود کو بیت المقدس میں داخل ہونے اور عبادت کرنے سے روک دیا۔ اور دور نبوی میں مشرکین مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو کعبہ میں نماز ادا کرنے سے روکتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روک دیا تھا۔ اس طرح یہ لوگ اللہ کے گھر یعنی مساجد کی رونق اور آبادی کے بجائے ان کی بربادی کے درپے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس سے بڑا اور کیا ظلم ہوسکتا ہے۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد مشرکین کی یہ پابندی ختم ہوگئی۔ قوم کی تربیت کیسے ہو؟: بچوں کی تربیت ماں کرتی ہے ۔ اس قوم کو اچھی مائیں نہیں ملی تھیں۔ مائیں خدا پرست نہیں رہی تھیں۔ (۱)صاحب علم و صاحب عمل ماں تو جب بچے کو دودھ پلاتی ہے تو بسم اللہ پڑھ کر پلاتی ہے اور ختم کرتی ہے تو الحمد للہ کہتی ہے۔ اس طرح بچہ رفتہ رفتہ یہ الفاظ سیکھ لیتا ہے۔ (۲) عورت کو دین کی تعلیم نہ دے کر مسجدیں ویران ہوگئی ہیں۔ (۳)صبح سے شام تک زندگی کا سفر کرتے ہیں مگر اس سفر میں اللہ کا نام نہیں۔ نپولین نے کہا تھا كہ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔ اب ماں کی زندگی کے مقاصد بدل گئے ہیں۔ میڈیا مسجدوں میں ویرانی کا رول ادا کررہا ہے ۔ (۲) فرقہ بندی اپنے فرقے کو اجازت ہے، دوسرے فرقے کے لوگ آجائیں تو مسجد دھودی جاتی ہے۔ (۳) غلط قسم کے بحث و مباحثے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ اِلَّا مُكَآءً وَّ تَصْدِيَةً فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ﴾ (الانفال: ۳۵)’’اللہ کے گھر کے پاس ان کی نماز کیا ہوتی جو سیٹیاں بجاتے اور تالیاں پٹتے تھے پھر چکھو اب عذاب کا مزہ۔‘‘