وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَىٰ عَلَىٰ شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَىٰ لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۚ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
یہود یہ کہتے ہیں کہ عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں اور عیسائی یہ کہتے ہیں کہ یہودیوں کے پاس کچھ نہیں۔ حالانکہ وہ (دونوں) کتاب [١٣١] پڑھتے ہیں۔ ایسی ہی باتیں وہ لوگ بھی (دوسروں کو) کہتے ہیں جو خود کچھ نہیں جانتے۔[١٣٢] سو اللہ ہی قیامت کے دن ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں یہ [١٣٣] اختلاف رکھتے ہیں
شان نزول: ابن عباس رضی اللہ عنہماما سے روایت ہے كہ عیسائی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے پاس یہود کے علماء بھی آئے اور آپس میں جھگڑنے لگے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر ابن ابی حاتم: ۱/ ۳۴۰) یہودی تورات اور انجیل بھی پڑھتے تھے اسی طرح عیسائی بھی یہ دونوں کتابیں پڑھتے تھے یہودی عیسائیوں کو کافر سمجھتے تھے کیونکہ وہ ایک کی بجائے تین خدا مانتے تھے اور عیسائی یہود کو اس لیے کافر سمجھتے تھے کہ وہ حضرت عیسیٰ پر ایمان نہیں لائے تھے۔ قریش مکہ اللہ کے گھر کی حفاظت کرتے تھے اس لیے وہ اپنے آپ کو برتر سمجھتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم اپنے رویوں کو دیکھو اپنے آپ کو ابراہیم کی اولاد سمجھتے ہو اور دوسروں کوگمراہ اور بے دین سمجھتے ہو اس کا فیصلہ تو قیامت کے روز ہوجائے گا۔ قریش مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام میں نماز پڑھنے سے روک دیا تھا۔