سورة الانفال - آیت 33

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

حالانکہ یہ مناسب نہ تھا کہ اللہ انہیں عذاب دے اور آپ ان میں موجود ہوں اور نہ ہی یہ مناسب تھا کہ اللہ ایسے لوگوں کو عذاب [٣٤] دے جو استغفار کرتے ہوں

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

عذاب سے امان کی دو صورتیں : ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر دوامن میری اُمت کے لیے اُترے ہیں ۔ (۱) میری موجودگی(۲) ان کا استغفار، پس جب میں چلا جاو ٔں گا تو استغفار قیامت تک کے لیے ان میں چھو ڑ جاؤں گا۔ (ترمذی: ۳۰۸۲) ایک روایت میں ہے کہ شیطان نے کہا!اے اللہ مجھے تیری عزت کی قسم میں تو جب تک تیرے بندوں کے جسم میں روح ہے انھیں بہکاتا رہوں گا۔ اللہ عزوجل نے فرمایا،مجھے بھی میری جلالت میری بزرگی کی قسم، جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے ر ہیں گے میں بھی انھیں بخشتا رہو ں گا۔ (مستدرک حاکم: ۴/ ۲۶۱) ابو جہل کی بد دُعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب تک اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم میں موجود ہے تم پر عذاب نہیں آسکتا اور دوسری وجہ اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنو ں کی جماعت اللہ سے استغفا ر کرتے رہتے ہیں اور میرا قانون یہ ہے کہ جب تک کسی قوم میں استغفار کرنے والے لوگ موجود ہیں میں اس پر عذاب نازل نہیں کیا کرتا ۔