وَاذْكُرُوا إِذْ أَنتُمْ قَلِيلٌ مُّسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَن يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُم بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم تھوڑے سے تھے، زمین میں کمزور سمجھے جاتے تھے اور تمہیں [٢٦] یہ خطرہ لگا رہتا تھا کہ لوگ تمہیں کہیں اچک کر نہ لے جائیں پھر اللہ نے تمہیں جائے پناہ مہیا کی اور اپنی مدد سے تمہیں مضبوط کیا اور کھانے کو پاکیزہ چیزیں دیں گا تاکہ تم شکرگزار [٢٧] بنو
اہل ایمان پر اللہ کے احسانات : اس آیت میں مکی زندگی کے شد ائد و خطرات کا بیا ن اور اسکے بعد مدنی زندگی میں مسلمان جس آرام و راحت سے بفضل الٰہی ہمکنا ر ہوئے اس کا تذکرہ ہے ۔پروردگار مومنو ں کو اپنے احسانات یاد دلا رہا ہے، کہ ان کی گنتی بڑھا دی، کمزوری کو طاقت سے بدل دیا،ان کے خوف کو امن سے بدل دیا، انکی فقیری کو فراغت اور آسودگی سے بدل دیا،انھوں نے جیسے جیسے اللہ کے حکم کی بجا آوری کی، ویسے ویسے ہی ترقی پاتے گئے، مکہ میں مومن صحابہ چھپے پھرتے تھے بے قرار رہتے تھے،ہروقت دشمنوں کا خطرہ لگا رہتا تھا، مجوسی، یہودی،بت پرست سب ان کے خون کے پیا سے تھے اور ان کی یہ حالت تھی کہ تعداد میں انگلیوں پر گنے جاتے تھے اسکے بعد اللہ نے انھیں مدینے کی طرف ہجرت کا حکم دیا، وہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے قدم جما دیے، مدینہ والوں کو ان کا پشت پناہ بنا دیا، انصار نے اپنے مال پانی کی طرح بہا دیے، بدر والے دن اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر ساتھ دیا ۔ قتادہ بن د عامہ سد وسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عرب کے لوگ سب سے زیادہ گرے ہوئے،سب سے زیادہ تنگ حال‘ سب سے زیادہ بھوکے ننگے، سب سے زیادہ گمراہ اور بے دین و بد مذہب تھے ۔جیتے تو ذلت کی حالت میں ‘مرتے تو جہنمی ہو کر، اللہ كی قسم! روئے زمین پر ان سے زیادہ گمراہ کوئی نہ تھے،یہ اسلام لائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اطاعت گزار بنے تو اِدھر سے اُدھر تک ملکوں پر ان کا قبضہ ہوگیا، دنیا کی دولت ان کے قدموں میں تھی لوگوں کی گردنوں کے مالک اور دنیا کے بادشاہ بن گئے،یاد رکھو یہ سب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر عمل کے نتائج تھے، پس تم اپنے پروردگا رکے شکر میں لگے رہو اللہ شکر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔(تفسیر طبری: ۱۳/۴۷۸)