أَوَلَمْ يَنظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ مِن شَيْءٍ وَأَنْ عَسَىٰ أَن يَكُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُهُمْ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ
اور کیا انہوں نے آسمان و زمین کی حکومت اور جو چیز بھی اللہ نے پیدا کی ہے، ان میں کبھی غور نہیں کیا ؟ اور کیا یہ بھی نہیں سوچا کہ شاید ان کی زندگی کی مدت قریب آلگی ہو (ختم ہو رہی ہو) تو پھر پیغمبر کی اس تنبیہ کے بعد اور کون سی [١٨٥] بات ہوگی جس پر یہ ایمان لائیں گے؟
اللہ تعالیٰ کی اتنی وسیع بادشاہت اور زمین و آسمان کی ہر طرح کی مخلوق میں سے کسی ایک چیزنے بھی انھیں غور و فکر کے بعد اسکی تو فیق نہ دی کہ یہ ایمان لے آتے،اور رب کو وحدہ لا شریک جان لیتے کہ اتنی بڑی خلق کا خالق، اتنے بڑے ملک کا واحد مالک ہی عبادتوں کے لائق ہے اور یہ شرک و کفر کو چھوڑ دیتے اور انھیں ڈر لگنے لگتا کہ کیا خبر ہماری موت کا وقت قریب ہی آگیا ہو، جب انھیں اتنی نشانیوں کو دیکھ لینے کے بعد، اور اسقدر باتیں سمجھانے کے بعد بھی ایمان و یقین نہ آیا، اللہ کی کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آجانے کے بعد بھی یہ راہ راست پر نہ آئے تو اب کس کی بات کو مانیں گے، مسند کی حدیث میں ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: ’’معراج والی رات جب میں ساتویں آسمان پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ گویا اوپر کی طرف سے بجلی کی کڑک اور کھڑکھڑا ہٹ ہو رہی ہے، میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس پہنچا جن کے پیٹ بڑے بڑے گھروں جتنے اونچے تھے جن میں سانپ پھر رہے تھے،جو باہر سے ہی نظر آتے تھے، میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ انھوں نے بتایا یہ سودخور ہیں جب میں وہاں سے اترنے لگا تو آسمان اول پر آکر میں نے دیکھا نیچے کی جانب دھواں، غبار، اور شورو غل ہے، میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا یہ شیاطین ہیں، جو اپنی خر مستیوں اور دھینگا مشتیوں سے لوگوں کی آنکھوں پر پردے ڈال رہے ہیں کہ وہ آسمان و زمین کی چیزوں میں غور و فکر نہ کر سکیں،اگر یہ بات نہ ہوتی تو وہ بڑے عجائبات دیکھتے۔‘‘ (مسند احمد: ۲/ ۳۵۳، ابن ماجہ: ۲۲۷۳)