أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ
یا یہ کہہ دو کہ : شرک تو ہم سے پہلے ہمارے آباء و اجداد نے کیا تھا اور ہم تو ان کے بعد کی اولاد تھے تو کیا ہمیں تو اس قصور میں ہلاک کرتا ہے جو غلط کاروں نے کیا [١٧٦] تھا
عہد الست اور اتمام حجت: اس ازلی عہد کی اللہ تعالیٰ نے دو اغراض بیان فرمائیں۔ایک یہ کہ انسان پر اتمام حجت ہوجائے اور کوئی مشرک، ملحد، کافر یا نا فرمان انسان قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں تو اس حقیقت کا پتہ ہی نہ چل سکا، کیو نکہ اللہ تعالیٰ نے عہد کو سمجھنے کی طاقت بھی انسان کے اندر رکھ دی ہے، اور بیرونی طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتا بیں اور انبیا ء بھی بھج دیے تاکہ وہ انسانوں کو یہ عہد یاد دلاتے رہیں، دوسری وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے آباؤ اجداد، بگڑے ہوئے ماحول پر اپنی گمراہی کی ذمہ داری ڈال کر خو د بریٔ الذمہ نہیں ہو سکتا، کیو نکہ ہر شخص سے یہ عہد انفرادی طور پر لیا گیا ہے، اور وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اصل میں مشرک یا قصو وار تو ہمارے بڑے بزرگ تھے اور ہمیں محض انکی اولاد ہونے کی سزا کیوں دی جارہی ہے، یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم میں سے کوئی شخص بھی یہ جانتا ہے کہ آغاز آفرینش میں وہ اپنے رب کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور اُس سے ’’اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ‘‘ کا سوال ہوا تھا، اور اُس نے (بلی) کہا تھا، اور جس کی یاد ہمارے شعور اور حا فظہ سے محو ہو چکی ہے، ہمارے خلاف حجت کیسے قرار دیا جا سکتا ہے، جواب، اگر میثاق کا نقش انسان کے حا فظہ اور شعور میں تازہ رہنے دیا جاتا تو انسان کا دنیا کی امتحان گاہ میں بھیجنا سرے سے فضول ہو جاتا کیو نکہ امتحان وآزمائش کے کوئی معنی ہی باقی نہ رہ جاتے۔