وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَٰذَا غَافِلِينَ
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب آپ کے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا اور انہیں خود اپنے اوپر گواہ بنا کر پوچھا : ’’ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں؟‘‘ وہ (ارواح) کہنے لگیں : ’’کیوں نہیں! [١٧٥] ہم یہ شہادت دیتے ہیں‘‘ (اور یہ اس لیے کیا) کہ قیامت کے دن تم نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس بات سے بالکل بے خبر تھے
اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ: یہ عہد الست کہلاتا ہے، یہ عہد حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد ان کی پشت سے ہونے والی اولاد سے لیا گیا اسکی تفصیل ایک حدیث میں اسطرح آتی ہے ۔ نعمان یعنی عرفات کے مقام پر اللہ تعالیٰ نے اصلاب آدم سے میثاق (پختہ عہد ) لیا، پس آدم کی پشت سے ان کی ہونے والی تمام اولاد کو نکا لا اور اسکو اپنے سامنے پھیلا دیا اور ان سے پوچھا؟’’ کیا میں تمہا را رب نہیں ہوں ؟‘‘ سب نے کہا بَلٰی شَھِدْنَا: کیوں نہیں ہم سب رب ہونے کی گواہی دیتے ہیں (مسند احمد: ۱/ ۲۷۲، ح: ۲۴۵۹، مستدرک حاکم: ۲/ ۵۴۴) امام شوکانی فرماتے ہیں اس حدیث میں کوئی طعن نہیں، اسکی یہی تفسیر صحیح اور حق ہے۔ اللہ کی ربوبیت کی یہ گواہی ہرانسان کی فطرت میں و دیعت ہے، اسی مفہوم کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا ہے۔ ’’ہربچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پس اسکے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں، جس طرح جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہو تاہے، پھر اس کا ناک، کان کاٹ دیتے ہیں۔ (بخاری: ۱۳۵۸) مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’میں نے اپنے بندوں کو حنیف (اللہ کی طرف یکسوئی سے متوجہ ہونے والا ) پیدا کیا،پس شیطان ان کو ان کے دین (فطری) سے گمراہ کردیتا ہے۔‘‘ (مسلم: ۲۳۱۲) یہ فطرت یا دین فطرت یہی رب کی تو حید اور اسکی نازل کردہ شریعت ہے، جو اب اسلام کی صورت میں موجود و محفوظ ہے۔ تم یہ نہ کہنا، سے مراد: یعنی ہم نے اپنی ربوبیت کی گواہی اس لیے لی، تاکہ تم یہ عذر نہ پیش کر سکو کہ ہم تو غافل تھے۔