سورة البقرة - آیت 104

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ۗ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اے ایمان والو! رَاعِنَا نہ کہا کرو بلکہ (اس کے بجائے) اُنْظُرْنَا کہہ لیا کرو۔ اور (بات کو پہلے ہی) توجہ سے سنا کرو۔ [١٢٣] اور کافروں کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یہود جب کبھی آپ کی مجلس میں بیٹھتے اور آپ کے ارشادات کو سنتے پھر اگر دوبارہ سننے یا سمجھنے کی ضرورت پیش آتی تو ازراہ عناد (راعنا) کہنے کی بجائے زبان کو مروڑ کر راعینا کہا کرتے راعنا کا مطلب ہے ذرا ہماری طرف توجہ کیجیے یا بات دہرا دیجئے اور راعینا کا مطلب ہے ہمارے چرواہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ’’راعنا‘‘ کہنے سے روک دیا اور فرمایا کہ تم ’’اُنظرنا‘‘ کہہ لیا کرو۔ اور بہتر تو یہ ہے کہ بات کو پہلے ہی توجہ سے سن لیا کرو پھر انظرنا کہنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ اور یہودی تو ہیں ہی کافر جو یقیناً دردناک عذاب کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کلام پڑھنے کے آداب سکھائے ہیں: (۱) کثرت سوال سے بچا جائے ۔ (۲) غوروفکر کا طریقہ اختیار کیا جائے۔(۳) گفتگو میں صاف صاف الفاظ کا استعمال کیا جائے ۔ (۴) مشتبہ الفاظ کا استعمال نہ کیا جائے جن سے کوئی بُرا پہلو نکلتا ہو۔ (۵) بات کو توجہ سے سننے اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ (۶)سوال و جواب کے بجائے عبرت و نصیحت کا ذہن پیدا کریں۔(۷) دنیا میں کسی کے پاس کوئی بھلائی دیکھ کر حسد اور جلن میں مبتلا نہ ہوں کیونکہ یہ تو اللہ کا فضل ہے جو اللہ کے فیصلے کی وجہ سے بندے کوپہنچا۔(۱۰)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و عظمت کا خیال رکھیں۔