وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَىٰ مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ ۚ أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا ۘ اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ
موسیٰ کے (طور پر جانے کے) بعد اس کی قوم نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑے کا جسم (پتلا) بنایا جس میں سے بیل کی آواز نکلتی تھی ان لوگوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ نہ تو ان سے کوئی بات کرتا ہے اور نہ ہی ان کو راستہ دکھاسکتا ہے پھر بھی انہوں نے اسے (الٰہ) بنالیا
بنی اسرائیل کا بچھڑے کو پوجنا: حضرت موسیٰ علیہ السلام جب چالیس راتوں کے لیے کوہ طور گئے تو پیچھے سے سامری نامی شخص نے سونے کے زیورات جو فرعونیوں کے پاس یعنی بنی اسرائیل کے پاس رہ گئے تھے، انھیں جمع کیا اور اس کو پگھلا کر ایک بچھڑا بنایا جو اللہ کی قدرت سے گائے کی شکل کا بن گیا تھا اُس میں جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کے سموں کے نیچے کی مٹی بھی شامل تھی، جو اس نے سنبھال کر رکھی ہوئی تھی، اس میں شامل کردی، جس میں اللہ نے زندگی کی تاثیررکھی تھی، جس کی وجہ سے بچھڑاکچھ کچھ بیل کی آواز نکا لتا تھا (گو واضح کلام کرنے اور راہنمائی کرنے سے عاجز تھا جیسا کہ قرآن کے الفاظ واضح کر رہے ہیں )اس میں اختلاف ہے، کہ وہ فی الواقع گوشت پوست کا بچھڑا بن گیا تھا یا تھا وہ سونے کا ہی لیکن کسی طریقے سے اس میں ہوا داخل ہوتی تو گا ئے، بیل کی سی آواز یں اس میں سے نکلتیں۔ (ابن کثیر: ۲/ ۴۰۱) اس آواز سے سامری نے بنی اسرائیل کو گمراہ کیا کہ تمہارا معبود تو یہ ہے، موسیٰ علیہ السلام بھول گئے ہیں اور وہ معبود کی تلاش میں کوہ طور پر گئے ہیں،بنی اسرائیل کو اتنی سمجھ بھی نہ آئی کہ جو معبو د انہوں نے گھڑ لیا ہے وہ معبود تو کسی بات کا جواب بھی نہیں دے سکتا اور نہ نفع و نقصان کا اختیار رکھتا ہے، تو وہ ان کی راہنمائی کیا کرے گا، اسکے باوجود انھوں نے بچھڑے کو معبود قرار دے دیا تواس سے بڑھ کر بھی کوئی بے انصافی، ظلم و شرک کی بات ہو سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے: ’’کسی چیز کی محبت انسان کو اندھا، بہرہ کر دیتی ہے۔‘‘ (ابوداؤد: ۵۱۳۰)