سورة البقرة - آیت 93

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا ۖ قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ ۚ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُم بِهِ إِيمَانُكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور (وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب ہم نے طور پہاڑ کو تمہارے اوپر اٹھا کر تم سے اقرار لیا (اور حکم دیا تھا) کہ جو کتاب تمہیں دی جارہی ہے اس پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونا اور اس کے احکام غور سے سننا تو (تمہارے اسلاف) کہنے لگے کہ ہم نے یہ حکم سن لیا اور (دل میں کہا) ہم مانیں گے نہیں۔[١١٠] ان کے اسی کفر کی وجہ سے بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دی گئی تھی۔ آپ ان سے کہئے کہ اگر تم مومن ہو تو تمہارا یہ [١١١] ایمان تمہیں کیسی بری باتوں کا حکم دیتا ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ تورات کے احکام کو توجہ سے سنو لیکن چونکہ ان کے دلوں میں بچھڑے کی پوجا نے گھر کرلیا ہوا تھا۔ اس لیے انھوں نے اللہ کے حکم کی کوئی پرواہ نہ کی: (۱) اگر انسان اللہ کے احکام کو غور سے سنے تو وہ ضرو ر حق کو پالیتا ہے۔ (۲) توجہ سے سننے سے ہی حق دل و دماغ میں اترتا ہے۔ (۳) پھر تمناؤں کا مرکز بدل جاتا ہے ۔(۴) حق انسان کے اندر انقلاب برپا کردیتا ہے۔ (۵) پھر تعصب اور مصلحت کی دیواریں گر جاتی ہیں۔ (۴) پھر انسان اپنے آپ کو حق کے ساتھ شامل کرلیتا ہے۔ اور حق کا گواہ بن جاتا ہے۔ (۷) جب انسان توجہ سے سُن لے تو پھر مان بھی لیتا ہے اور پھر اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ (۸) جو اپنی مصلحتوں کی خاطر حق چھوڑ دیتا ہے اس کے لیے کوئی معافی نہیں۔ (۹) پھر اللہ تعالیٰ انسان کے دلوں میں خواہشات کی محبت بٹھا دیتا ہے پھر انسان میں انا پرستی اور خواہش پرستی پیدا ہوتی ہے۔ میں بھی انا پرست ہوں تو بھی انا پرست ہے اللہ کا تعلق ہمیشہ رہنے والا ہے باقی ہر چیز فانی ہے۔ دنیاوی تعلیم بھی ضروری ہے مگرفنا ہونے والی ہے۔ جبکہ اللہ کے کلام سے تعلق دنیا میں بھی کام آئے گااور آخرت میں بھی ۔قرآن میں ہے یقیناً وعدہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا کوئی دین نہیں جس کا کوئی عہد نہیں ۔(مسند احمد: ۳/ ۱۳۵، ح: ۱۲۳۸۳) آپ نے عہد کیا تھا کہ اللہ کا پیغام پوری دنیا تک پہنچانا ہے اور آپ نے یہ وعدہ پورا کیا۔ جو شخص کان لگاکر کسی آیت کو سنے تو اس کے لیے کثرت سے پڑھنے والی نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر وہ اسے پڑھے تو یہ اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگا۔