وَنَادَىٰ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ أَصْحَابَ النَّارِ أَن قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدتُّم مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ۖ قَالُوا نَعَمْ ۚ فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ أَن لَّعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ
اور اہل جنت دوزخیوں کو پکار کر پوچھیں گے :’’ہم نے تو ان وعدوں کو سچا پالیا ہے جو ہم سے ہمارے پروردگار نے کیے تھے کیا تم سے تمہارے پروردگار نے جو وعدے کیے تھے تم نے بھی انہیں سچا پایا ؟‘‘ وہ جواب [٤٣۔ الف] دیں گے’’ ہاں! (ہم نے بھی سچا پایا)‘‘ پھر ان کے درمیان ایک پکارنے والا پکارے گا کہ ’’ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو
قرآن کریم میں اس آیت اور بعض دوسری آیات سے اہل جنت اوراہل دوزخ کا مکالمہ ثابت ہے۔ جنتی جب جاکر امن و چین سے بیٹھ جائیں گے تو وہ دوزخیوں سے سوال کریں گے کہ ہم نے تو اپنے رب کے وعدے جو ہم سے کیے تھے سچا پایا ہے تم کہو تم نے کیسا پایا۔ دوزخی ندامت سے کہیں گے کہ ہم نے بھی اپنے رب کے ان وعدوں کو جو ہم سے کیے تھے صحیح پایا ہے۔ یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں جو کافر مارے گئے تھے ان کی لاشیں ایک کنوئیں میں پھینک دی تھیں انھیں خطاب کرتے ہوئے کہی تھی جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا۔ ’’آپ ایسے لوگوں سے خطاب فرمارہے ہیں جو ہلاک ہوچکے ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم میں انھیں جو کچھ کہہ رہا ہوں، وہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں لیکن اب وہ جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔‘‘ (بخاری: ۳۹۷۶، مسلم: ۲۸۷۴) ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو: پھر ایک پکارنے والا پکارے گا کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت واقع ہوچکی جو لوگوں کو ہدایت کے راستے سے روکتے تھے۔ اور چاہتے تھے کہ اللہ کی شریعت پر کوئی عمل نہ کرے۔ نہ انھیں آخرت پر یقین تھا نہ اللہ کی ملاقات پر۔ نہ حساب کتاب کا ڈر تھا اس لیے بے پرواہی سے برائیاں کرتے تھے۔ کجی پیدا کرنا چاہتے ہیں: مثلاً اسلام کی سزائیں وحشیانہ ہیں آج کے دور میں ان پر عمل نہیں ہوسکتا۔ اسلام نے عورتوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دیکر انھیں قیدی بنا دیا ہے پھر اپنا سیاسی اور معاشی نظام بھی اوروں سے لیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ سود کے بغیر معیشت نہیں چل سکتی، یہ سب باتیں اسلام سے روکنے اور سیدھی راہ میں کجی پیدا کرنے کے لیے ہیں۔