بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
(شروع) اللہ کے نام [٢] سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ [٣]
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ میں پناہ مانگتا ہوں اللہ كی شیطان مردود سے۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ قرآن کریم کا حق کیا ہے؟ قرآن عظیم ہے۔ صاحب قرآن عظیم ہے۔ قرآن سمجھنے کے لیے دل کی حاضری ضروری ہے۔ غوروفکر کرنا ضروری ہے۔ اسے انسان کے فہم سے قریب انسانی آواز میں پیش کیا۔ قرآن میں اللہ کی تجلی ظاہر ہوتی ہے۔ ہم اس کو دل کی حاضری اور توجہ سے پڑھنے اور سُننے سے اس کا حق ادا کرسکتے ہیں۔ قرآن کا تعارف: یہ عظیم قرآن ہے۔ عظیم انسان پر نازل ہوا ہے ۔ اس میں متقی لوگوں كے لیے روشنی اور ہدایت ہے۔ یہ اللہ کا کلام ہے جو اس نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے۔ اس کو نازل کرنے والا سب سے بڑا، سب سے زیادہ قوت والا، رزق دینے والا اور زندگی اور موت دینے والا ہے۔ ہمیں زندگی اس لیے دی کہ ہم اس قرآن کو پڑھ کر اس کے بتائے ہوئے طریقے پر اپنی زندگی بسر کریں، اس كی عبادت کریں، اچھے اعمال کریں، کیونکہ وہ وحدہ لا شریک ہے۔ سزا و جزا دینے والا ہے اس جیسی کوئی کتاب نہیں۔ یہ مکمل ضابطہ حیات ہے قیمتی خزانوں کی چابیاں ہیں۔ اس کلام کا فہم رکھنے والا اپنے اعمال میں زندہ رہتا ہے۔ حدیث:حضرت حارث بن احور رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو مسائل پر جھگڑتے ہوئے دیکھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے دیکھا ہے کہ عنقریب ایک فتنہ اٹھے گا۔ جس سے نجات کا ذریعہ قرآن ہوگا، قرآن دو ٹوک بات کرتا ہے جو اُسے چھوڑے گا اللہ اس کی کمر توڑدے گا اور جو کوئی كسی اور چیز كو ذریعہ ہدایت بنائے گا اللہ اُسے گمراہ کردے گا، اس کی عجیب و غریب باتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں، جس نے اس کی بناء پر فیصلہ کیا اُس نے عدل کیا۔‘‘ [مقدمہ ابن كثیر بتصرف] سورۃ فاتحہ: قرآن کا افتتاح کرنے والی سورت ہے۔ اس کے دوسرے نام مندرجہ ذیل ہیں: (۱) اُم القرآن (۲) السبع المثانی (۳) القرآن العظیم [المستدرك: ۲۰۵۳] حدیث قدسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ((قَسَمْتُ الصَّلوٰۃُ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ عَبْدِیْ)) ’’میں نے صلاۃ (نماز) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے۔‘‘ جس کا نصف حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء ، اس کی رحمت و ربوبیت، عدل و بادشاہت کے بیان میں ہے اور نصف حصے میں دعا و مناجات ہے جو بندہ اپنے رب کی بارگاہ میں کرتا ہے۔‘‘ [ مسند احمد: ۴۶۰، ح: ۹۹۳۴] حدیث قدسی میں ہے کہ ’’جب نماز میں میرا بندہ کہتا ہے ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندے نے میری تعریف کی، جب وہ کہتا ہے ’’ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے میری ثنا بیان کی، اور جب ’’ مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے میری بزرگی بیان کی۔ اور ’’ اِیَّاكَ نَعْبُدُوَ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے، اور سورت کا باقی حصہ میرے بندے کے لیے ہے۔ اس کو وہی ملے گا جو اس نے مانگا ہے۔‘‘ (مسلم: ۳۹۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ا للہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے لیے تقسیم کردیا۔‘‘ (مسلم: ۳۹۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: جس نے بغیرفاتحہ کے نماز پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے اور ایسا تین مرتبہ فرمایا، اور یہ پوچھنے پر کہ ہم امام کے پیچھے کیا کریں؟ فرمایا:’’ تم سورۂ فاتحہ اپنے جی میں پڑھو۔‘‘ (مسلم: ۳۹۵) شروع اللہ كے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا تعارف چار صفات الٰہی سے کروایا گیا ہے: (۱) رب (۲) رحمٰن (۳) رحیم (۴) مالک۔ اللہ کی پہچان اس کو ملتی ہے جو اس کی صفات پر غور و فکر کرکے اپنی زندگی اس طرح جینا شروع کردیتے ہیں۔ پھر اللہ کی رحمت ملتی ہے۔ سوچ بدلتی ہے۔ عمل بدلتا ہے۔ اخلاق بدلتا ہے، پھر وہ بندہ ایماندار بنتا ہے، عہدکو پورا کرتا ہے اللہ کی راہ میں جان، مال، صلاحیت لگانے کے لیے تیار ہوتا ہے اللہ کی مخلوق سے محبت کرتا ہے۔ سیرت کی روشنی میں : اے اللہ! میں نے اپنی ذات پر بڑا ظلم کیا ہے تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں اے اللہ میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں، تیرے سوا کوئی قدرت نہیں رکھتا نفع یا نقصان پہنچانے کی، میں تیرے فضل و رحمت کا سوال کرتا ہوں۔