سورة الاعراف - آیت 26

يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اے بنی آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا جو تمہاری شرمگاہوں کو ڈھانپتا ہے اور زینت بھی ہے [٢٣] اور لباس تو تقویٰ ہی کا بہتر [٢٤] ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ شاید لوگ کچھ سبق حاصل کریں

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(١) اب یہاں سے آیت اولاد آدم سے خطاب ہے یعنی وہ احکام بیان کیے گئے ہیں جو آدم کی ابتدائی نسل کے افراد کو دیئے گئے تھے جب وہ زمین پر پھیل گئے۔ (ا) خدا نے زمین کی پیداوار میں تمہارے لیے لباس کا سامان پیدا کردیا، اس میں پوشش و حفاظت بھی ہے اور زیب و زینت بھی، نیز اس نے ایک دوسرا لباس بھی مہیا کردیا ہے اور وہ لباس تقوی ہے۔ پہلا جسم کی حفاظت و زینت ہے، دوسرا روح کی۔ (ب) دنیا کا سامان زیب و زینت خدا کی بخشی ہوئی نعمت ہے۔ پس دینداری کا مقتضا یہ ہوا کہ انہیں کام میں لایا جائے۔ نہ یہ کہ ان سے گریز کیا جائے، خدا کی عبادت کرو تو اپنے سامان زینت سے آراستہ ہو کر کرو۔ (ج) کھاؤ پیو دنیا کی تمام نعمتیں کام میں لاؤ مگر اسراف یعنی بے اعتدالی نہ کرو۔ یہ بات جکہ دنیا کی تمام راحتوں اور لذتوں سے فائدہ اٹھانا مگر بے اعتدالی سے بچنا دین حقیقی کی وہ بنیادی اصل ہے جس کی اولاد آدم کو تعلیم دی گئی تھی۔ (د) خدا کا قانون یہ ہے کہ انسان کی ہدایت کے لیے پیغمبر مبعوث کرتا ہے، پھر جو کوئی اصلاح کی راہ اختیار کرتا ہے فلاح پاتا ہے۔ جو سرکشی کرتا ہے تباہ ہوتا ہے۔ یہاں خسوصیت سے لباس کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ اس میں انسان کی عقل زندگی کا سب سے پہلا مظاہرہ تھا، جب وہ لباس پہننے لگا تو یہ گویا اس حقیقت کا اعلان ہوا کہ اخلاقی شعور ابھر آیا ہے، صنعت و اختراع کی راہوں سے آشنا ہوگیا ہے اور عام حیوانی زندگی کی جگہ انسانی زندگی کی خصوصیات نشو ونما پارہی ہیں۔ خدا کے دین کی اسلی تعلیم تو یہ تھی لیکن لوگوں نے خود ساختہ گمراہیاں پیدا کرلیں اور انہیں حکم الہی سمجھنے لگے۔ آیت (٢٨) میں فرمایا گمراہی کا سب سے بڑا سرچشمہ اپنے بزرگوں کی تقلید ہے۔ مشرکین عرب کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی ہم نے اپنے بزرگوں کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ آیت (٢٩) میں دین حق کے تین بنیادی اصول واضح کردیئے عمل میں اعتدال، عبادت میں توجہ اور خدا پرستی میں اخلاص، یہ آیت باب توحید میں اصل اصول ہے۔ فرمایا دین کو خدا کے لیے خاص کر کے اسے پکارو یعنی دین کی جتنی باتیں ہیں وہ صرف خدا ہی کے لیے مخصوص کردو۔ رہبانیت کا رد اور اس اصل عظیم اعلان کہ دنیوی زندگی کی آسائشیں خدا پرستی کے خلاف نہیں ہیں بلکہ ان کو کام میں لانا عین منشائے ایزدی کی تعمیل ہے۔ چنانچہ فرمایا اولاد آدم کو جو تعلیم دی گئی تھی وہ یہ تھی کہ اپنی زیب و زینت سے آراستہ ہو کر خدا کی عبادت کرو۔ پیروان مذاہب کی عالمگیر گمراہی یہ تھی کہ سمجھتے تھے روحانی سعادت جبھی مل سکتی ہے کہ دنیا ترک کردی جائے اور خدا پرستی کا مقتضا یہ ہے کہ زینتوں اور آسائشوں سے کنارہ کش ہوجائیں۔ قرآن کہتا ہے حقیقت اس کے عین برعکس ہے۔ تم سمجھتے ہو زندگی کی زینتیں اس لیے ہیں کہ ترک کردی جائیں۔ حالانکہ وہ اسی لیے ہیں کہ کام میں لائی جائیں، دنیا اور دنیا کی تمام نعمتوں کو ٹھیک طور پر کام میں لانا مشیت الہی کو پورا کرنا ہے، خدا نے زمین میں جو کچھ پیدا کیا ہے سب تمہارے ہی لیے ہے۔ کھاؤ، پیو زینت و آسائش کی تمام نعمتیں کام میں لاؤ مگر حد سے نہ گزر جاؤ، دنیا نہیں دنیا کا بے اعتدالانہ استعمال روحانی سعادت کے خلاف ہے۔ زندگی کی جن زینتوں کو پیروان مذاہب خدا پرستی کے خلاف سمجھتے تھے انہیں قرآن زینۃ اللہ یعنی خدا کی زینتوں سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ آیت قرآن کا ایک انقلاب انگیز اعلان ہے جس نے انسان کی دینی ذہنیت کی بنیادیں الٹ دیں، وہ دنیا جو نجات و سعادت کی طلب میں دنیا ترک کر رہی تھی اب اسی نجات و سعادت کو دنیا کی تعمیر و ترقی میں ڈھونڈنے لگی۔ یہاں زینت سے مقصود وہ تمام چیزیں ہیں جو زندگی کی قدرتی ضروریات سے زیادہ ہوں۔ مثلا اچھا لباس، اچھا کھانا، معیشت کی تمام بے ضرر آسائشیں اور لذتیں۔ آیت (٣٤) میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ افراد کی طرح جماعتوں کی موت و حیات کے لیے بھی مقررہ قوانین ہیں اور ان کے احکام اٹل ہیں۔ جب ایک جماعت کا شر و فساد اس حد تک پہنچ جاتا ہے جو جماعتوں کی ہلاکت کے لیے ٹھہرا دی گئی ہے تو پھر ظہور نتائج میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں ہوتی۔ یہاں اس اشارہ سے مقصود روسا عرب کی تنبیہ اور مومنوں کی تزکیر ہے کہ انقلاب حال کا وقت آگیا ہے اور ضروری ہے کہ فیصلہ کن نتائج ظہور میں آئیں۔ آیت (٣٥) میں فرمایا کہ اولاد آدم کو ہدایت وحی کے وقتا فوقتا ظہور کی خبر دی گئی تھی، اسی قانون کے مطابق اب پیغمبر اسلام کا ظہور ہوا ہے، وہ اپنے دعوے میں سچا ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ آنے والے نتائج کردیں گے، کیونکہ صورت حال نے دو فریق پیدا کردیئے ہیں۔ ایک داعی قرآن ہے جو کہتا ہے میں خدا کی طرف سے مامور ہوں، دوسرا فریق منکروں کا ہے جو اسے جھٹلاتا ہے، جو شخص خدا پر بہتان باندھے اس سے بڑھ کر کوئی گنہگار نہیں اور جو سچے کو جھٹلائے اس کی بدبختی میں بھی کلام نہیں۔