سورة الانعام - آیت 141

وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۚ كُلُوا مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ۖ وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

وہی تو ہے [١٥٠] جس نے دونوں طرح کے باغات پیدا کئے ایک وہ جن کی بیلیں ٹٹیوں پر چڑھائی جاتی ہیں۔ دوسرے وہ درخت جو خود اپنے تنے پر کھڑے ہوتے ہیں (ان کی بیل نہیں ہوتی جو ٹٹیوں پر چڑھائی جائے) نیز کھجوریں اور کھیتیاں پیدا کیں جن سے کئی طرح کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں۔ نیز اس نے زیتون اور انار پیدا کئے جن کے پھل اور مزا ملتے جلتے بھی ہوتے ہیں اور مختلف [١٥١] بھی۔ جب یہ درخت پھل لائیں تو ان سے خود بھی کھاؤ اور فصل اٹھاتے وقت ان میں سے [١٥٢] اللہ کا حق بھی ادا کرو۔ اور بے جا خرچ نہ کرو۔ کیونکہ اللہ اسراف [١٥٣] کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

72: تشریح کے لیے دیکھئے پیچھے آیت نمبر 99 کا حاشیہ 73: اس سے مراد عشر ہے جو زرعی پیداوار پر واجب ہوتا ہے مکی زندگی میں اس کی کوئی خاص شرح مقرر نہیں تھی، بلکہ جب کٹائی کا وقت آتا تو کھیتی کے مالک پر فرض تھا کہ جو فقراء اس وقت موجود ہوں ان کو اپنی صوابدید کے مطابق کچھ دے دیا کرے، مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد اس کے مفصل احکام آئے اور آنحضرتﷺ نے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ بارانی زمینوں پر پیداوار کا دسواں حصہ اور نہری زمینوں پر بیسواں حصہ غریبوں کا حق ہے، آیت نے بتایا ہے کہ یہ حق کٹائی ہی کے وقت ادا کردینا چاہئے۔