سورة الانعام - آیت 70

وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ وَذَكِّرْ بِهِ أَن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤْخَذْ مِنْهَا ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا ۖ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور ان لوگوں کو چھوڑیئے جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا [٧٧] ہے اور دنیا کی زندگی نے انہیں فریب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اور انہیں قرآن کے ذریعہ یہ نصیحت کیجئے کہ ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گرفتار ہے۔ اللہ کے سوا نہ اس کا کوئی حمایتی ہوگا اور نہ سفارشی، اور وہ کسی بھی چیز سے بدلہ دینا چاہے گا تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہی لوگ ہیں جو اپنے کئے کے بدلہ میں گرفتار ہیں۔ اور جو وہ کفر کرتے رہے ہیں تو اس کے بدلے انہیں پینے کو کھولتا پانی ملے گا اور انہیں دردناک عذاب ہوگا

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

25: اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس دین کو انہیں اپنانا چاہئے تھا، (یعنی اسلام) اس کو قبول کرنے کے بجائے وہ اس کا مذاق بناتے ہیں۔ اور یہ مطلب بھی ممکن ہے کہ جو دین انہوں نے اختیار کر رکھا ہے وہ کھیل تماشے جیسی بے بنیاد رسموں پر مشتمل ہے اور دونوں صورتوں میں ان لوگوں کو چھوڑنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس کا مطلب وہی ہے کہ ان کی اس قسم کی گفتگو میں ان کے ساتھ مٹ بیٹو جس میں وہ اللہ کی آیات کو استہزاء کا نشانہ بناتے ہوں