سورة المآئدہ - آیت 77

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِن قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

آپ ان سے کہئے : اے اہل کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور ان لوگوں کے پیچھے نہ چلو جو پہلے ہی گمراہ ہیں اور بہت لوگوں کو گمراہ کرچکے ہیں [١٢٣] اور سیدھی راہ سے بھٹک چکے ہیں

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

53: ” غلو“ کا مطلب ہے کسی کام میں اس کی معقول حدود سے آگے بڑھ جانا۔ عیسائیوں کا غلو یہ تھا کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعظیم میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ انہیں خدا قرار دے دیا، اور یہودیوں کا غلو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے محبت کا جو اظہار کیا تھا اس کی بنا پر یہ سمجھ بیٹھے کہ دنیا کے دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر بس وہی اللہ کے چہیتے ہیں اور اس وجہ سے وہ جو چاہیں کریں، اللہ تعالیٰ ان سے ناراض نہیں ہوگا، نیز ان میں سے بعض نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دے لیا تھا۔