سورة المآئدہ - آیت 64

وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ ۚ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۚ وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۚ كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ ۚ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا ۚ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یہود کہتے ہیں کہ [١٠٥] اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے، بندھے ہوئے تو انہی کے ہاتھ ہیں اور اس بکواس کی وجہ سے ان پر پھٹکار پڑگئی۔ بلکہ اللہ کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہیں۔ وہ جیسے چاہتا ہے خرچ کرتا ہے اور جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے اس نے ان کے اکثر لوگوں کو (بجائے ہدایت کے) الٹا سرکشی [١٠٦] اور کفر میں ہی بڑھا دیا ہے (جس کے نتیجہ میں) ہم نے ان کے درمیان روز قیامت تک عداوت [١٠٧] اور کینہ ڈال دیا ہے۔ جب بھی یہ لوگ جنگ کی آگ [١٠٨] بھڑکاتے ہیں، اللہ اسے بجھا دیتا ہے۔ یہ ہر وقت زمین میں فساد بپا [١٠٩] کرنے میں لگے رہتے ہیں اور اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

46: جب مدینہ منورہ کے یہودیوں نے آنحضرتﷺ کی دعوت کو قبول نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو تنبیہ کے طور پر کچھ عرصے کے لئے معاشی تنگی میں مبتلا کردیا، اس موقع پر بجائے اس کے کہ وہ ہوش میں آتے ان کے بعض سرداروں نے یہ گستاخانہ جملہ کہا، ہاتھ کا بندھا ہونا عربی میں بخل اور کنجوسی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لہذا ان کا مطلب یہ تھا کہ معاذاللہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ بخل کا معاملہ کیا ہے، حالانکہ بخل کی صفت تو خود ان کی مشہور ومعروف تھی اس لئے فرمایا گیا کہ ہاتھ تو خود ان کے بندھے ہوئے ہیں۔ 47: یہ یہودیوں کی ان سازشوں کی طرف اشارہ ہے جو وہ مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ مل کر کرتے رہتے تھے، اگرچہ انہوں نے آنحضرتﷺ سے جنگ بندی کا معاہدہ کررکھا تھا ؛ لیکن درپردہ اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ مسلمانوں پر کوئی حملہ ہو اور وہ اس میں شکست کھائیں، مگر اللہ تعالیٰ ہر موقع پر ان کی سازش کو ناکام بنادیتے تھے۔