سورة المآئدہ - آیت 48

وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور ہم نے آپ پر سچی کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلے کی کتاب کی تصدیق کرتی ہے۔ اور اس کی جامع و نگران [٨٧] بھی ہے۔ لہٰذا آپ ان کے فیصلے اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق ہی کیجئے اور جبکہ آپ کے پاس حق آچکا ہے تو ان کی خواہشات کے پیچھے نہ چلیے۔ تم میں سے ہر امت کے لئے ہم نے ایک شریعت اور ایک [٨٨] راہ عمل مقرر کی ہے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت بھی بنا سکتا تھا لیکن وہ تو چاہتا ہے کہ اس نے جو کتاب تمہیں دی ہے اس کے ذریعہ تمہاری [٨٩] آزمائش کرے۔ لہٰذا (اصل کام یہ ہے) کہ بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو۔ تم سب نے اللہ ہی کی طرف جانا ہے پھر جن باتوں میں تم اختلاف کرتے رہے وہ [٩٠] سب کچھ تمہیں بتا دے گا

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

40: یہودی اور عیسائی آنحضرتﷺ کی دعوت قبول کرنے سے جو انکار کرتے تھے اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اسلام میں عبادت کے طریقے اور بعض دوسرے احکام حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی شریعت سے مختلف تھے اور ان لوگوں کو ان نئے احکام پر عمل کرنا بھاری معلوم ہوتا تھا، اس آیت نے واضح فرمایا کے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت مختلف پیغمبروں کو الگ الگ شریعتیں عطا فرمائی ہیں، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عبادت کا کوئی ایک طریقہ یا کوئی ایک قانون اپنی ذات میں کوئی تقدس نہیں رکھتا، اس میں جو کچھ تقدس پیدا ہوتا ہے وہ اللہ کے حکم سے پیدا ہوتا ہے، لہذا جس زمانے میں اللہ تعالیٰ جو حکم دے دیں وہی اس زمانے میں تقدس کا حامل ہے، اب ہوتا یہ ہے کہ جو لوگ ایک طریقے کے عادی ہوجاتے ہیں وہ اسی کو ذاتی طور پر مقدس سمجھ بیٹھتے ہیں، اور جب کوئی نیا پیغمبر نئی شریعت لے کر آتا ہے تو ان کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ پرانے طریقے کو ذاتی طور پر مقدس سمجھ کر نئے طریقے کا انکار کر بیٹھتے ہیں یا اللہ کے حکم کو اصل تقدس کا حامل سمجھ کر نئے حکم کو دل وجان سے تسلیم کرتے ہیں، آگے جو ارشاد فرمایا گیا ہے کہ لیکن (تمہیں الگ شریعتیں اس لئے دیں) تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے اس کا یہی مطلب ہے۔