لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ
چونکہ (اللہ نے) قریش کو مانوس کردیا [١] تھا
تفسیر وتشریح۔ (١) سورۃ قریش کو بعض نے مدنی قرار دیا ہے لیکن اکثر مفسرین نے اسے مکی ہی کہا ہے۔ اور (رب ھذالبیت) کے الفاط اس کے مکی ہونے کی تائید کرتے ہیں اس سورۃ کے مضمون کو سمجھنے کے لیے بھی اس کے تاریخی پس منظر کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جد اعلی قصی بن کلاب وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے قریش کو متفرق مقامات سے بلاکر مکہ میں جمع کیا اس بنا پر قصی کعمجمع، کالقب دیا گیا اس نے حج کے نظام کو بہتر بنایا اور حاجیوں کی خدمت کا انتظام کیا۔ جس سے قریش کا اثر ورسوخ تمام عرب میں قائم ہوگیا اور وہ احترام کی نظر سے دیکھے جانے لگے۔ قصی کے بعد اس کے دوبیٹوں عبدمناف اور عبدالدار کے درمیان اسی شہری ریاست کے مناصب تقسیم ہوگئے مگر عبدمناف کو ناموری حاصل رہی۔ عبدمناف کے چاربیٹے تھے ہاشم، عبدشمس، مطلب اور نوفل۔ ان میں ہاشم نے بین الاقوامی تجارت میں حصہ لینا شروع کردیا جوعر کے راستہ بلادمشرق اور شام ومصر کے درمیان ہوتی تھی اس دور میں ایران کی ساسانی حکومت اس بین الاقوامی تجارت پر قابض تھی جوشمالی علاقوں اور خلیج فارس کے راستوں رومی سلطنت اور بلاد مشرقی کے درمیان ہوتی تھی اس لیے کاروبار بہت تیزی سے ہورہا تھا دوسرے عرب کے قافلوں کی بہ نسبت قریش کو سہولت حاصل تھی اور تمام قبائل بیت اللہ کے خام ہونے کی وجہ سے ان کی عزت کرتے تھے اور قریش کے قافلے نہایت امن سے آتے جاتے تھے اور ان بھائیوں نے مختلف ممالک سے اپنے تعلقات قائم کرلیے تھے اور گردورپیش سے ان تعلقات کی بنا پر ان کو اصحاب الایلاف کہا جاتا تھا اور مکہ جزیرۃ العرب کا نہایت اہم تجارتی مرکز بن گیا اور ابرہہ کا حشر دیکھ کر قبائل اور زیادہ قریش کے معتقد ہوگئے اور بیت اللہ کا طواف بیت اللہ سمجھ کر کرنے لگے تھے اس بنا پر قریش نہایت امن وامان سے تجارت کرتے تھے اور کوئی بھی ان سے تعرض کی جرات نہیں کرتا تھا۔ اس مختصر سورۃ میں قریش پراسی احسان کو دہرایا گیا ہے اور اسے یاد دلاکر انہیں ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی گئی ہے۔