وَهَٰذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ
اور اس پُر امن شہر [٤] (مکہ) کی
اصل تفسیر : (والتین والزیتون۔۔ تا۔۔۔ الحاکمین)۔ ” انجیر اور زیتون، طور سینا اور مکہ معظمہ شاہد ہیں کہ بلاشبہ ہم نے انسان کو بہترین حالت عدل پر پیدا کیا پھر اس کو بد سے بدتر حالت میں پھینک دیا مگر وہ لوگ کہ ایمان لائے اور عمل صالح کیے تو ان کے اعمال کے نتائج صرف بہتری ہی کے لیے ہیں ان کے عمل صالحہ کا بدلہ کبھی منقطع نہ ہوگا ہمیشہ پھل دے گا پس اس حقیقت کے سمجھ لینے کے بعد کون ہے جو اعمال کے نتائج سے انکار کرے گا اور اس بارے میں رسول کی تعلیم کو جھٹلائے گا؟ کیا سب سے بڑا حکم کرنے والا خدا ہی نہیں ہے ؟ جس کے قانون جزاوسزا میں کبھی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ تفصیل استشہاد : حضرت نوح کے بعد دین الٰہی کاسلسلہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ سے شروع ہوتا ہے اور ظہور اسلام اسی کا آخری مکمل ظہور ہے حضرت ابراہیم کی نسل سے بنواسرائیل پیدا ہوئے جن کے احیاء کے لیے حضرت موسیٰ کی دعوت کا اظہار ہوا اور انہوں نے بنی اسرائیل کو مصریوں کی غلامی سے نکال کر عزت وخلافت کے درجہ پر پہنچا دیا۔ ان کے بعد جب بنی اسرائیل نے پھر اللہ تعالیٰ کے احکام سے سرتابی کی اور اصلاح کی جگہ فساد کا طریق اختیار کیا تو روزبروز تنزل وتسفل میں مبتلا ہونے لگے پس انبیائے مجددین کاسلسلہ شروع ہوا اور وہ یکے بعد دیگرے اصلاح کرتے رہے لیکن سلسلہ تنزل بھی برابر بڑھتا گیا حتی کہ وراثت ارضی سے بنواسرائیل محروم ہوگئے اور ان پر یکسر تباہی وبربادی طاری ہوگئی اس وقت حضرت عیسیٰ کی دعوت کا ظہوروا جن پر چند غریب اور فاقہ مست انسان ایمان لائے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہی غریب مچھیروں اور فقیروں کو یہ درجہ دیا کہ ان کی دعوت وتبلیگ عالم میں پھیلی اور تمام روم یونان میں مسیحی مذہب پھیل گیا۔ پس انسان کے اعمال عظیمہ وصالحہ کے ان مظاہرے کے تین قریبی درجے ہوئے۔ ١۔ دین الٰہی کی وہ بنیاد جو بیابان حجاز میں حضرت ابراہیم واسماعیل نے ڈالی اور اس کی اینٹیں رکھتے ہوئے امت مسلمہ کے ظہور کی دعا مانگی (واذ یرفع ابراہیم القواعد من البیت واسماعیل ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم) البقرہ ع ١٥)۔ اور جب ابراہیم واسماعیل خانہ کعبہ کی بنیاد رکھ رہے تھے تو ان کی زبانوں پر یہ پاک دعا جاری کی تھی، اے پروردگار ہمارے اس کام کو قبول کرلے تو دعاؤں کاسننے والا ہے اور توہماری نیتوں کو خوب جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول کیا نسل اسماعیل سے امت مسلمہ کا ظہور ہو اور وہ آخری معلم ربانی آگیا جس نے تعلیم کتاب وحکمت اور تربیت تزکیہ الٰہی سے جماعت مومنین پیدا کردی۔ ٢۔ دعوت موسوی کی وہ روشنی جوطور سینا پر چمکی اور وادی ایمن کے بقعہ مبارکہ سے، انی انااللہ رب العالمین، کی صدائے حق اٹھی : (فلما اتھا نودی من شاطئی۔۔۔ تا۔۔۔ رب العالمین)۔ پس جب موسیٰ کوہ طور کے پاس پہنچے تو وادی ایمن کے کنارے کہ زمین کا ایک مبارک حصہ تھا درخت سے ندا اٹھی، اے موسیٰ : میں ہوں تمام جہانوں کاپروردگار۔ یہی کوہ طور کی وادی ایمن کی روشنی تھی کہ جس نے بنواسرائیل کو ظلمت وتنزل وتسفل سے نجات دلائی اور عظمت وخلافت الٰہی کے درجے تک مرتفع کیا۔ ٣۔ دعوت مسیحی کا وہ ظہور جو سلسلہ اسرائیلی کا آخری ظہور تھا اور جو بیت المقدس کی سرزمین میں ہوا : (فامنت طائفۃ من بنی اسرائیل وکفرت طائفۃ۔۔ تا۔۔۔ ظاہرین) ترجمہ۔ پس بنواسرائیل کی ایک جماعت اس پر ایمان لائی اور ایک جماعت نے انکار کیا تو مومنوں کو ہم نے ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد دی نتیجہ یہ نکلا کہ ایمان والوں کی کامیابی اور فتح مندی ظاہر ہوگئی۔ قرآن حکیم کی مخاطب جوجماعتیں تھیں ان کی معلومات میں بھی انسانی عظمت وقدوسیت کے بالاتفاق یہی تین جلوے تھے اہل کتاب حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کے نام لیوا تھے اور مشرکین مکہ کابڑا ادعائی شرف یہ تھا کہ وہ اپنے تئیں حضرت ابراہیم کی طرف منسوب کریں۔ پس سورۃ والتین میں سعادت انسانی کے انہی تین ظہوروں سے انسان کی فطرت صالحہ وعظمت وشرف پر شہادت لائی گئی ہے تین اور زیتون سے مقصود سرزمین شام ہے جہاں حضرت عیسیٰ کا ظہور ہو اور جوتمام انبیائے مجددین اسرائیل کا مقام ظہور ہے طورسنین سے اشارہ دعوت موسوی کی طرف ہے جس کی تجلی کا مطلع اسی مقدس پہاڑ کا دامن تھا بلد امین یعنی ہمیشہ امن میں رہنے والا گھر خانہ کعبہ ہے اور اس میں اشارہ ہے کہ حضرت ابراہیم کی دعوت موسسہ ابراہیمیہ اور اس کے نتائج کی طرف ہے۔ استشہاد کی ترتیب شاخ سے اصل کی طرف، نسل سے مورث کی طرف فاضل سے افضل کی طرف اور حسن سے احسن کی طرف ہے یعنی ظہور سعادت انسانی کے اس سلسلہ میں افضل ترین بنیادی مرتبہ دعوت ابراہیمی کا ہے اس کے بعد مرتبہ قیام شریعت موسوی کا اس کے بعد مرتبہ تجدید انبیائے بنی اسرائیل کا عموما اور حضرت عیسیٰ کا خصوصا (علی نبینا وعلیہم الصلوۃ والسلام) پس ترتیب جڑسے شاخ کی طرف نہیں ہے بلکہ شاخ سے جڑکی طرف ہے اور اس میں بالترتیب تینوں درجوں کے مراتب یکے بعد دیگرے ملحوظ رکھے گئے ہیں چونکہ سب سے آخری ظہور مسیحی سب سے زیادہ قریب تھا اس لیے سب سے پہلے اس کا ذکر کیا گیا اس کے بعد اس سے اعلی مرتبہ دعوت موسوی کا تھا پس اس کا ذکر کیا پھر سب سے اعلی ترین مرتبہ بمنزلہ اصل وحقیقت الحقائق کے مقام خلت کبری حضرت ابراہیم کا تھا پاس پر مدارج ثلاثہ ختم ہوگئے۔ تین وزیتون : تین وزیتون سے سرزمین شام کامراد لینا بالکل واضح ہے : ١۔ طور سنین اور بلدامین دونوں میں اشارہ اس سرزمین کی طرف کیا گیا ہے جہاں ان دعوتوں کا ظہور ہوا پس معلوم ہوا کہ اس سورت میں سرزمین کی طرف اشارہ کرکے اس سرزمین کی مشہور دعوت وامت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے اس بنا پر تین وزیتون میں بھی اشارہ کسی سرزمین ہی کی طرف ہوگا جیسا کہ مابعد کی دوشہادتوں میں ہے۔ ٢۔ دنیا کی تمام سرزمینوں میں اس وقت بھی جبکہ قرآن حکیم نازل ہوا اور اب بھی جبکہ ملکوں کی طبعی پیدوار کی فہرست ہمارے سامنے موجود ہے انجیر اور زیتون ایک مخصوص پیداوار سرزمین شام کی ہے جس کثرت کے ساتھ اور جس قدر اعلی درجہ کی یہ دونوں چیزیں وہاں ہوتی ہیں کہیں نہیں ہوتیں۔ زیتون کا تیل شام کی ایک عام غذا ہے گھی کی جگہ اسی کواستعمال کرتے ہیں عیسائیوں کے بڑے بڑے مذہبی اعمال کا اب تک یہ ایک مقدس جز ہے ان کے تمام مذہبی رسوم میں اسی تیل کو مقدس تیل کہا جاتا ہے روم کے تمام عیسائی بادشاہ جب تخت نشین ہوتے تھے تو مقدس تیل ان کے سینے پر لگایا جاتا تھا اور کہتے تھے کہ یہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا اتباع ہے آج تک تاج پوشی کی رسم میں ایک پیالی روغن زیتون کی بھی رکھی جاتی ہے قطع نظر ان تمام خصوصیات کے اس سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ تمام عرب میں یہ دوچیزیں شام کی مخصوص وممتاز پیداوار سمجھی جاتی تھیں اور اس قدر مشہور تھیں کہ بچہ بچہ جانتا تھا اشارہ کے لیے کافی ہے۔ ٣۔ پس جب تین وزیتون کا اشارہ بھی کسی ملک کی طرف ہونا چاہیے اور وہ شام کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا تو پھر یہ ظاہر ہے کہ شام کا سب سے بڑا آخری ظہور حق حضرت عیسیٰ کی دعوت ہے اوساتھ ہی یہ سرزمین تمام اسرائیلی انبیائے مجددین کے ظہور کا بھی گھر ہے۔ نیز چونکہ اس کے بعد ہی دعوت موسوی کی طرف اشارہ موجود ہے اس لیے ربط بھی یہی چاہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی دعوت کیطرف بھی اشارہ ہے۔ ٤۔ سب سے زیادہ یہ کہ تین وزیتون کی تفسیر کے متعلق صحابہ کرام وتابعین عظام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو جوروایات موجود ہیں ان سب پر مجموعی نظرڈالنے کے بعد یہی تفسیر راجح ثابت ہوتی ہے اور قرآن حکیم کی سب سے زیادہ صحیح تفسیر وہی ہے جو صحابہ (رض) کی تفسیر کے مطابق ہو کہ ان کے علوم حامل وحی سے براہ راست ماخوذ تھے۔ امام ابن جریر طبری نے تمام روایتیں جمع کردی ہیں ان پر نظر ڈالو سب سے پہلے حضرت کعب کا ایک قول سامنے آتا ہے کہ التین، مسجد دمشق والزیتون بیت المقدس۔ تین مسجد دمشق ہے اور زیتون بیت المقدس۔ پھر حضرت عبداللہ بن عباس کی نسبت سے اس قول کی شہرت ثابت ہوتی ہے کہ، الزیتون بیت المقدس۔ یعنی زیتون بیت المقدس ہے۔ لیکن اس کے بعد بعض کبارتابعین کی تصریحات سامنے آتی ہیں جنہوں نے اس امر پرزور دیا کہ ھو تینکم وزیتونکم۔ یعنی تین اور زیتون سے یہی انجیر اور زیتون مراد ہے جو تم استعمال کرتے ہو اور کوئی چیز مقصود نہیں حضرت حسن، عکرمہ، مجاہد، قتادہ وغیرہ سب نے یہی کہا ہے۔ اب ان دونوں تفسیروں کو جمع کرو جن صحابہ (رض) سے اس قول کو شہرت ہوئی کہ تین اور زیتون سے مراد مسجد دمشق اور بیت المقدس ہے انکا مقصود یہ نہ تھا کہ دمشق کی کسی عمارت کا نام تین ہے اور بیت المقدس کا نام زیتون۔ بلکہ یہ واضح کرنا تھا کہ تین وزیتون میں اشارہ سرزمین شام کی طرف ہے کیونکہ وہاں ان دوچیزوں کی پیداوار بکثرت ہوتی ہے اور یہ اس کے خصائص میں سے ہیں پس زیتون یعنی بیت المقدس سے مطلب یہ تھا کہ زیتون میں اشارہ بیت المقدس کی طرف ہے۔ لیکن بہت سے لوگوں کو اس میں غلطی ہوئی اور انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ طور سیناء کی طرح زیتون بھی بیت المقدس کے کسی پہاڑ کا نام ہے اور پھر طرح طرح کی مزید تاویلیں اس میں بڑھ گئیں یہ حال دیکھ کر بعض اجلہ تابعین نے غلطی کو دور کرنا چاہا اور زور دے کر کہا، ھو تینکم وزیتونکم کہ تین اور زیتون کسی پہاڑ کا نام نہیں وہ یہی انجیر اور زیتون ہے جو تم استعمال کرتے ہو گویاانہوں نے واضح کیا کہ تین وزیتون سے اس کی جائے پیدائش مقصود ہے یہ نہیں کہ خود اس سرزمین کا نام ہی تین وزیتون ہو۔ چنانچہ امام ابن جریر کا بھی قریب قریب یہی خیال ہے تمام روایتیں جمع کرکے لکھتے ہیں :” والصواب من القول فی ذالک عندنا من قال التین ھوالتین الذی یوکل والزیتون ھو الزیتون الذی یعصر منہ الزیت لان ذالک ھو المعروف عند العرب۔ الا ان یقول قائل اقسم ربنا بالتین والزیتون والمراد من الکلام القسم بمنا بیت التین ومنابت الزیتون فیکون ذالک مذھبا (ج ٣، ص ١٥٤)۔ ترجمہ۔ کہ اس بارے میں ہمارے نزدیک انہی لوگوں کا قول ٹھیک ہے جنہوں نے کہا تین وہی تین ہے جو کھایا جاتا ہے اور زیتون وہی زیتون کا درخت ہے جس سے تیل نکلتا ہے کیونکہ عرب میں یہ معروف تھا اور اس نام کے کسی پہاڑ کو وہ نہیں جانتے تھے ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین اور زیتون کی قسم کھائی مگر مقصود اس سے تین اور زیتون کی پیدائش کے مقامات کی قسم کھانا ہے سواگر یہ کہا جائے تو یہ ایک مذہب ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جولوتین وزیتون سے یہی پھل اور درخت مراد لیتے ہیں ان کو صرف اس سے انکار ہے کہ کسی ملک یا پہاڑ کا نام تین وزیتون نہیں ہے اور یہ بالکل واضح ہے لیکن اس سے وہ انکار نہیں کرتے کہ ان چیزوں سے ان چیزوں کی پیدائش کی سرزمین مراد نہ ہو۔ احسن تقویم : احسن تقویم میں تقویم ٹھیک ٹھیک بمعنی تعدیل کے ہے یعنی ہم نے انسان کو بہترین قوام وعدل پر پیدا کیا تعدیل خلقت میں جسم اور فطرت ظاہر وباطن سب داخل ہیں اور جن صحابہ وتابعین سے، فی اعدل خلق واحسن صورۃ، بکثرت منقول ہے نیز جو صحابہ استقامت صورت وجسم کو پیش کرکے حقیقت تعدیل خلقت کو سمجھانا چاہتے تھے اور ان سب کا مقصود ہی تعدیل فطرت ہے اور اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کسی نے کہا انسان کا قد دیکھو کسی نے کہا جسم کاتناسب دیکھو کوئی اور آگے بڑھا اور کہا کہ خلقت کی تعدیل معنوی پر بھی نظر ڈالو تعدیل کا ایک بڑا نمونہ انسان کا قد ہے اس کی بڑی نمود اس کے تناسب اعضا وجسم میں ہے اور پھر اس کی فطرت عدل وقوام صالح پیدا کی گئی ہے پس سب نے ایک ہی حقیقت کو واضح کیا اور اسی کو مختلف تعبیرات سے سمجھانا چاہا۔