وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا
ان ہواؤں کی قسم جو دھیرے دھیرے چلتی ہیں
تفسیر وتشریح۔ (١، ٢) یہ سورۃ مکی عہد کی تنزیلات سے ہے اس کاموضوع قیامت اور آخرت ہے اور اس کے نتائج سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔ چنانچہ ابتدائی آیات میں ہواؤں کو گواہ بناکر فرمایا ہے کہ قرآن مجید جس قیامت کے آنے کی خبر دے رہا ہے وہ آکررہے گی جس قادر مطلق نے زمین پر یہ حیرت انگیز انتظامات قائم کررکھے ہیں اس کی قدرت قیامت برپا کرنے سے عاجز نہیں ہے، اور انسانی تاریخ بتارہی کے جن قوموں نے بھی عالم آخرت کا انکار کیا وہ آخرکار بگڑیں گی اور تباہی سے دوچار ہوں گئیں، اس سے ثابت ہوا کہ قیامت اور جزا وسزا کانظریہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جو قومبھی اس سے متصادم ہوئی اسے برے انجام سے دوچار ہوناپڑا۔ اور پھر یہاں کائنات میں جونظام چل رہا ہے وہ محض طبعی نظام نہیں بلکہ قانون اخلاق بھی کام کررہا ہے جس کے تحت اس دنیا میں مکافات عمل کاسلسلہ جاری ہے لیکن اس دنیا میں یہ مکافات مکمل نہیں ہوسکتی ہے اسلیے لازما ایک ایسا دن مقرر کیا گیا ہے جس میں مکمل سزا دی جائے گی۔ دنیا میں جس قدر تکوینی انقلابات آتے ہیں یہ سب ہواؤں کے کرشمے ہیں اس لیے قیام قیامت پر بھی انہی ہواؤں کی مختلف حالتوں کا ذکر کرکے بطور شہادت پیش کیا۔ ” عربی زبان میں جس کثرت سے ہوا کی مختلف قسموں اور حالتوں کے لیے سماء وصفات ہیں شاید ہی کسی زبان میں ہوں، اور صرف ہوا پر موقوف نہیں اس کی وسعت کے لیے ہر شے پیش کی جاسکتی ہے سورۃ مرسلات اور سورۃ ذاریات وغیرہ میں مرسلات، ذاریات، عاصفات، ناشرات، معصرات، صرصر وغیرہ جس قدر الفاظ آتے ہیں مختلف ہواؤں کے نام ہیں جوعرب جاہلیت نے اپنی میدانی اور صحرائی زندگی میں رکھ لیے تھے۔ عربی میں ہواؤں کی اصل قسمیں، جو بمنزلہ مہارت ریاح سمجھی جاتی ہیں چار ہیں، شمال، جنوب، صبا، دبور، پھر ان چار قسموں کی بہت سی قسمیں قرار دیں، بعض کی کیفیت یہ ہے۔ ١۔ صبا : ہوا کی معتدل، مفرح، آہستہ خرام، کشت پرور، لیکن ابروباراں کے ساتھ آنے والی اقسام ہوا میں سے ہے۔ ٢۔ جنوب : اس سے مخالف۔ ٣۔ سموم : گرم ہواؤں کی ایک قسم۔ ٤۔ خازم : ٹھنڈی ہواؤں کی نوقسموں میں سے ایک نہایت سرد قسم۔ ٥۔ سہام : نہایت گرم لو کی لپٹ۔ ٦۔ شمال : نہایت تھنڈی اور خنک ہوا، جسے شام کی طرف منسوب کرتے ہیں، صبا۔ یمن کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔ ٧۔ نسیم : نہایت ہلکی اور غیر محسوس ہوا۔