إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ
کہ بلاشبہ یہ (قرآن) ایک معزز رسول [٢٣] کی زبان سے نکلا ہے
(٤) آیت ٤٠ میں فرمایا ہے کہ یہ قرآن بلاشبہ رسول کریم کی گفتار ہے، یہاں پر رسول اکرم سے مراد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں اور سورۃ تکویر آیت نمبر ١٩ میں اس سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا جبرائیل کا کلام کس معنی میں کہا گیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے سن رہے تھے جبکہ آپ اسے جبرائیل سے سن رہے تھے اس اعتبار سے اسے حضور یا جبرائیل کا کلام کہہ دیا گیا ورنہ درحقیقت تو قرآن مجید کلام اللہ کا ہے چنانچہ آگے چل کروضاحت فرمادی ہے کہ یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے خود رسول اللہ کا لفظ ہی اسب ات پر دلالت کرتا ہے کہ کہ نبی پیغام رساں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے کلام کو پہنچانے والے ہیں۔