سورة النسآء - آیت 46

مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَقْوَمَ وَلَٰكِن لَّعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یہودیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کتاب کے کلمات کو ان کے موقع و محل [٧٧۔ ١] سے پھیر دیتے ہیں۔ اور اپنی زبانوں کو توڑ موڑ کر اور دین میں طعنہ زنی کرتے ہوئے یوں کہتے ہیں : سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا اور اسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ اور راعِنَا اس کے بجائے اگر وہ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا اور اِسْمَعْ اور اُنْظُرْنَا [٧٨] کہتے تو یہ ان کے لیے بہتر اور بہت درست بات تھی مگر اللہ نے تو ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت کردی ہے۔ اب ان میں سے ماسوائے چند لوگوں کے ایمان لانے کے نہیں

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

33: اس آیت میں بعض یہودیوں کی دو شرارتوں کا ذکر کیا گیا ہے ایک شرارت یہ ہے کہ وہ تورات کے الفاظ کو اپنے موقع محل سے ہٹاکر اس میں لفظی یا معنوی تحریف کا ارتکاب کرتے ہیں، یعنی بعض اوقات اس کے الفاظ ہی کو کسی اور لفظ سے بدل دیتے ہیں اور بعض اوقات اس لفظ کو غلط معنی پہنا کر اس کی من مانی تفسیر کرتے ہیں اور دوسری شرارت یہ ہے کہ جب وہ آنحضرتﷺ کے پاس آتے ہیں تو ایسے مبہم اور منافقانہ الفاظ استعمال کرتے ہیں جن کا ظاہری مفہوم برا نہیں ہوتا ؛ لیکن وہ اندرونی طور پر ان الفاظ سے وہ دوسرے معنی مراد لیتے ہیں جو ان الفاظ میں چھپے ہوئے ہوتے ہیں، قرآن کریم نے اس کی تین مثالیں اس آیت میں ذکر کی ہیں، ایک یہ کہ وہ کہتے ہیں سمعنا وعصینا جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے آپ کی بات سن لی اور نافرمانی کی، وہ ان الفاظ کا مطلب یہ ظاہر کرتے تھے کہ ہم نے آپ کی بات سن لی ہے اور آپ کے مخالفین کی نافرمانی کی ؛ لیکن اندر سے ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ہم نے آپ کی بات سن لی اور اسی بات کی نافرمانی کی ہے، دوسرے وہ کہتے تھے اسمع غیر مسمع اس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ آپ ہماری بات سنیں خدا کرے آپ کو کوئی بات سنائی نہ جائے ظاہری طور پر وہ یہ دعا دیتے تھے کہ آپ کو کوئی ایسی بات نہ سنائی جائے جو آپ کی طبیعت کی خلاف ہو، لیکن اندر سے ان کا مطلب ہوتا تھا کہ خدا کرے آپ کو ایسی بات نہ سنائی جائے جو آپ کو خوش کرے، تیسرے وہ ایک لفظ راعنا استعمال کرتے تھے جس کے معنی عربی زبان میں تو یہ ہیں کہ ہمارا خیال رکھئے لیکن عبرانی زبان میں یہ ایک گالی کا لفظ تھا جو وہ اندرونی طور پر مراد لیتے تھے۔